سنن النسائي - حدیث 4216

كِتَابُ الْبَيْعَةِ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْحِرْصِ عَلَى الْإِمَارَةِ صحيح أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الْإِمَارَةِ، وَإِنَّهَا سَتَكُونُ نَدَامَةً وَحَسْرَةً فَنِعْمَتِ الْمُرْضِعَةُ، وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَةُ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4216

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل امارت ( اور عہدے) کی حرص و خواہش ناپسندیدہ ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم رضی اللہ عنہم نے فرمایا: ’’عن قریب تم لوگ امارت (اقتدار و سرداری) کی حرص کرو گے اور بلاشبہ یہ (قیامت کے دن) ندامت و شرمندگی اور حسرت و افسوس (کا سبب) ہو گی۔ یہ دودھ پلاتے اچھی لگتی ہے مگر دودھ چھڑاتے ہوئے بری محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (اس کی ابتدا اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن انجام برا ہو گا۔)
تشریح : (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ امارت، یعنی اقتدار و سرداری کی حرص و ہوس شرعاً ناپسندیدہ اور مذمور ہے۔ (۲) رسول اللہﷺ اپنے مذکورہ بالا فرمان سے امت کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس کام کے انجام میں دکھ، تکلیف اور رنج و الم ہو، اسے معمولی اور زوال پذیر لذت و راحت کی خاطر ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ دنیوی لذات کے بجائے اخروی سعادت کے حصول اور آخرت کے عذاب سے خلاصی کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اصل مقصدِ حیات اور کامیابی دنیا کی لذتوں کا حصول نہیں بلکہ عذاب آخرت سے بچائو اور جنت میں داخل ہے۔ (۴) ’’ندامت و شرمندگی اور حسرت و افسوس‘‘ آخرت میں یا دنیا ہی میں کیونکہ جب اقتدار چھن جاتا ہے تو عموماً عذاب سہنا پڑتا ہے۔ تخت یا تختہ۔ (۵) ’’دودھ پلاتے ہوئے‘‘ حدی ثمیں مذکور اس مثال میں امارت کو ماں سے تشبیہ دی گئی ہے اور حریصِ امارت کو بچے سے۔ ماں جب تک دودھ پلاتی ہے، بچہ ماں سے خوب خوش رہتا ہے اور جب وہ دودھ چھڑا دیتی ہے تو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ اقتدار کا بھی یہی حال ہے۔ (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ امارت، یعنی اقتدار و سرداری کی حرص و ہوس شرعاً ناپسندیدہ اور مذمور ہے۔ (۲) رسول اللہﷺ اپنے مذکورہ بالا فرمان سے امت کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس کام کے انجام میں دکھ، تکلیف اور رنج و الم ہو، اسے معمولی اور زوال پذیر لذت و راحت کی خاطر ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ دنیوی لذات کے بجائے اخروی سعادت کے حصول اور آخرت کے عذاب سے خلاصی کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اصل مقصدِ حیات اور کامیابی دنیا کی لذتوں کا حصول نہیں بلکہ عذاب آخرت سے بچائو اور جنت میں داخل ہے۔ (۴) ’’ندامت و شرمندگی اور حسرت و افسوس‘‘ آخرت میں یا دنیا ہی میں کیونکہ جب اقتدار چھن جاتا ہے تو عموماً عذاب سہنا پڑتا ہے۔ تخت یا تختہ۔ (۵) ’’دودھ پلاتے ہوئے‘‘ حدی ثمیں مذکور اس مثال میں امارت کو ماں سے تشبیہ دی گئی ہے اور حریصِ امارت کو بچے سے۔ ماں جب تک دودھ پلاتی ہے، بچہ ماں سے خوب خوش رہتا ہے اور جب وہ دودھ چھڑا دیتی ہے تو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ اقتدار کا بھی یہی حال ہے۔