سنن النسائي - حدیث 4214

كِتَابُ الْبَيْعَةِ فَضْلُ مَنْ تَكَلَّمَ بِالْحَقِّ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4214

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل جو شخص ظالم امیر ( حکمران ) کے سامنے کلمہ حق کہے ، اس کی فضیلت حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیٔ اکرمﷺ سے پوچھا، جبکہ آپﷺ اپنا پائو مبارک رکاب میں رکھ چکے تھے: کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا۔‘‘
تشریح : (۱) یہ اس لیے افضل جہاد ہے کہ اس میں جان کا جانا یقینی ہوتا ہے، پھر میدان جنگ میں تو آدمی اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے جبکہ یہاں وہ بھی ممکن نہیں۔ ہر لحاظ سے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اور پھر برے طریقے سے مارا جاتا ہے۔ ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ملامت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ (۲) ’’رکاب میں پائوں رکھ چکے تھے‘‘ یعنی اونٹ پر سوار ہو رہے تھے۔ (۳) ’’ظالم بادشاہ‘‘ جو کلمۂ حق کہنے والے کو برداشت نہ کرتا ہو۔ (۱) یہ اس لیے افضل جہاد ہے کہ اس میں جان کا جانا یقینی ہوتا ہے، پھر میدان جنگ میں تو آدمی اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے جبکہ یہاں وہ بھی ممکن نہیں۔ ہر لحاظ سے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اور پھر برے طریقے سے مارا جاتا ہے۔ ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ملامت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ (۲) ’’رکاب میں پائوں رکھ چکے تھے‘‘ یعنی اونٹ پر سوار ہو رہے تھے۔ (۳) ’’ظالم بادشاہ‘‘ جو کلمۂ حق کہنے والے کو برداشت نہ کرتا ہو۔