سنن النسائي - حدیث 4212

كِتَابُ الْبَيْعَةِ ذِكْرُ الْوَعِيدِ لِمَنْ أَعَانَ أَمِيرًا عَلَى الظُّلْمِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَاصِمٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ تِسْعَةٌ، فَقَالَ: «إِنَّهُ سَتَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ مَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلَيْسَ بِوَارِدٍ عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَارِدٌ عَلَيَّ الْحَوْضَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4212

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل ظلم پر امیر کی مدد کرنے و الے شخص کے لیے وعید حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم نو ساتھی تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے بعد کچھ ایسے امیر ہوں گے کہ جو شخص ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے گا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس سے میرا کوئی تعلق ہے۔ اور اسے میرے پاس حوض کوثر پر آنا نصیب نہیں ہو گا۔ اور جو شخص ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم میں ان کا ساتھ نہ دے، وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور میں اس سے تعلق رکھتا ہوں اور وہ لازماً میرے پاس حوض کوثر پر آئے گا۔‘‘
تشریح : (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ جو شخص، کسی بھی طریقے سے، حاکم و امیر کے ظلم پر اس کی حمایت و اعانت کرے گا، اس کے لیے یہ خطرناک وعیدہ ہے کہ وہ حوض کوثر پر آنے اور جامِ کوثر نوش کرنے کی سعادت سے محروم ہو جائے گا، لہٰذا اس وعید شدید کو مدنظر رکھتے ہوئے ظالم حکمرانوں کے حضورت اپنی بزرگانہ و مشفقانہ، نیز عالمانہ و فاضلانہ خدمات پیش کرنے کے عوض اسمبلی کی ممبری، پرمٹ و پلاٹ اور دیگر عارضی و فانی اور زوال پذیر مراعات حاصل کرنے اور ان ’’کامیابیوں‘‘ کو اپنا کمال ہنر سمجھنے والے، متلاشیانِ قربِ شاہی، درباری ملائوں اور اصحاب جبہ و دستار کو بھی اپنی ’’سنہری خدمات‘‘ کا ازسر نو جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ ظلم و ناانصافی والے معاملے میں حاکم و امیر کی مدد کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (۲) ظالم حکمرانوں اور بے انصاف امراء سے فاصلہ رکھنا چاہیے تاکہ ان کے شر سے اپنے دین و ایمان کو سلامت رکھا جا سکے۔ ان سے قرب کی صورت میں یا تو ان کے ظلم و زیادتی پر، کسی بھی انداز سے، انہیں تعاون ملے گا یا ان کی تائیدڈ ہو گی یا پھر ظلم و زیادتی پر خاموشی اور سکوت کرنا پڑے گا، اور اصلاح کی صورت میں اپنے دین و ایمان کے فساد یا اپنی جان و مال کے اتلاف کا خطرہ ہے، اس لیے عافیت، اور سلامتی ان لوگوں سے دور رہنے ہی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سلف صلاح حکمرانوں سے دور ہی رہا کرتے تاکہ ان کے شر سے اپنے آپ کو اور اپنے دین کو محفوظ رکھ سکیں۔ (۳) ’’تصدیق نہ کرے‘‘ یعنی ان کے پاس جائے تو سہی مگر حق پر قائم رہے اور انہیں بھی حق کی طرف دعوت دیتا رہے۔ واقعتا یہ بلند مرتبہ ہے۔ (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ جو شخص، کسی بھی طریقے سے، حاکم و امیر کے ظلم پر اس کی حمایت و اعانت کرے گا، اس کے لیے یہ خطرناک وعیدہ ہے کہ وہ حوض کوثر پر آنے اور جامِ کوثر نوش کرنے کی سعادت سے محروم ہو جائے گا، لہٰذا اس وعید شدید کو مدنظر رکھتے ہوئے ظالم حکمرانوں کے حضورت اپنی بزرگانہ و مشفقانہ، نیز عالمانہ و فاضلانہ خدمات پیش کرنے کے عوض اسمبلی کی ممبری، پرمٹ و پلاٹ اور دیگر عارضی و فانی اور زوال پذیر مراعات حاصل کرنے اور ان ’’کامیابیوں‘‘ کو اپنا کمال ہنر سمجھنے والے، متلاشیانِ قربِ شاہی، درباری ملائوں اور اصحاب جبہ و دستار کو بھی اپنی ’’سنہری خدمات‘‘ کا ازسر نو جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ ظلم و ناانصافی والے معاملے میں حاکم و امیر کی مدد کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (۲) ظالم حکمرانوں اور بے انصاف امراء سے فاصلہ رکھنا چاہیے تاکہ ان کے شر سے اپنے دین و ایمان کو سلامت رکھا جا سکے۔ ان سے قرب کی صورت میں یا تو ان کے ظلم و زیادتی پر، کسی بھی انداز سے، انہیں تعاون ملے گا یا ان کی تائیدڈ ہو گی یا پھر ظلم و زیادتی پر خاموشی اور سکوت کرنا پڑے گا، اور اصلاح کی صورت میں اپنے دین و ایمان کے فساد یا اپنی جان و مال کے اتلاف کا خطرہ ہے، اس لیے عافیت، اور سلامتی ان لوگوں سے دور رہنے ہی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سلف صلاح حکمرانوں سے دور ہی رہا کرتے تاکہ ان کے شر سے اپنے آپ کو اور اپنے دین کو محفوظ رکھ سکیں۔ (۳) ’’تصدیق نہ کرے‘‘ یعنی ان کے پاس جائے تو سہی مگر حق پر قائم رہے اور انہیں بھی حق کی طرف دعوت دیتا رہے۔ واقعتا یہ بلند مرتبہ ہے۔