سنن النسائي - حدیث 4210

كِتَابُ الْبَيْعَةِ جَزَاءُ مَنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَأَطَاعَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زُبَيْدٍ الْإِيَامِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، فَأَوْقَدَ نَارًا فَقَالَ: ادْخُلُوهَا، فَأَرَادَ نَاسٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: إِنَّمَا فَرَرْنَا مِنْهَا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا: «لَوْ دَخَلْتُمُوهَا لَمْ تَزَالُوا فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»، وَقَالَ لِلْآخَرِينَ خَيْرًا، وَقَالَ أَبُو مُوسَى فِي حَدِيثِهِ: قَوْلًا حَسَنًا، وَقَالَ: «لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4210

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل اگر کسی کو گناہ کا حکم دیا جائے اور وہ اطاعت کرے تو ...؟ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رویات ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور ان پر ایک آدمی کو امیر مقرر فرمایا۔ اس نے آگ جلائی اور کہنے لگا: اس میں چھلانگیں لگا دو۔ کچھ لوگوں نے چھلانگیں لگانے کا ارادہ کر لیا۔ دوسرے کہنے لگے: ہم آگ سے بچنے کے لیے تو مسلمان ہوئے ہیں (لہٰذا ہم آگ میں چھلانگ نہیں لگائیں گے)۔ پھر (واپسی پر) انہوں نے رسول اللہﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے ان لوگوں کو، جنہوں نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا تھا، (مخاطب کر کے) فرمایا: ’’اگر تم آگ میں چھلانگیں لگا دیتے تو قیامت تک آگ ہی میں رہتے۔‘‘اور دوسروں کے لیے خیر کا کلمہ کہا۔ (استاد) ابو موسیٰ (محمد بن مثنیٰ) نے اپنی حدیث میں کہا: اور آپ نے دوسرے لوگوں کے بارے میں اچھی بات فرمائی۔ اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ صرف اطاعت اچھے کاموں میں ہے۔‘‘
تشریح : (۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام و امیر ایسا حکم دے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی پر مبنی ہو تو ایسا حکم اور امیر قطعاً واجب الطاعۃ نہیں۔ اور اگر کوئی شخص ایسے کسی حکم کو مانے گا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔ (۲) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ غصہ بڑے بڑے عقیل و فہیم اور جلیل القدر عظماء کی عقل کو بھی مائوف کر دیتا ہے جیسا کہ اس صحابیٔ رسول کا معاملہ ہے کہ جسے خود رسول اللہﷺ نے امیر سریہ مقرر فرمایا اور کسی بات پر ناراض ہو کر وہ غصے میں آ گئے اور اپنے ساتھیوں کو آگ جلا کر اس میں کود جانے کا حکم دے دیا۔ (۳) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ کی ساری امت، ضلالت و گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنے امیر کے غیر شرعی حکم کی اطاعت نہیں کی۔ (۴) رسول اللہﷺ نے سریہ میں جانے والے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ اپنے امیر کی اطاعت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالت ناراضی میں بھی انہیں امیر نے آگ میں کودنے کا حکم دیا تو کچھ لوگ اس پر تیار ہو گئے کیونکہ انہوں نے اطاعت امیر والے مطلق حکم کو عام، یعنی ہر قسم کے حالات کو شامل سمجھا، لیکن اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکم مطلق کا اطلاق عام اور ہر قسم کے حالات پر ضروری نہیں بلکہ وہاں اطلاق ہو گا جہاں اللہ او اس کے رسولﷺ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو، اسی لیے رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس کی وضاحت فرما دی۔ (۵) ’’آگ ہی میں رہتے‘‘ یعنی ان کو قبر میں عذاب ہوتا۔ برزخی زندگی میں جہنم سے تعلق ہی کو عذاب قبر کہا جاتا ہے اور جنت سے تعلق کو ثواب قبر۔ اور جہنم میں غالب آگ ہی ہے۔ (۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام و امیر ایسا حکم دے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی پر مبنی ہو تو ایسا حکم اور امیر قطعاً واجب الطاعۃ نہیں۔ اور اگر کوئی شخص ایسے کسی حکم کو مانے گا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔ (۲) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ غصہ بڑے بڑے عقیل و فہیم اور جلیل القدر عظماء کی عقل کو بھی مائوف کر دیتا ہے جیسا کہ اس صحابیٔ رسول کا معاملہ ہے کہ جسے خود رسول اللہﷺ نے امیر سریہ مقرر فرمایا اور کسی بات پر ناراض ہو کر وہ غصے میں آ گئے اور اپنے ساتھیوں کو آگ جلا کر اس میں کود جانے کا حکم دے دیا۔ (۳) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ کی ساری امت، ضلالت و گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنے امیر کے غیر شرعی حکم کی اطاعت نہیں کی۔ (۴) رسول اللہﷺ نے سریہ میں جانے والے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ اپنے امیر کی اطاعت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالت ناراضی میں بھی انہیں امیر نے آگ میں کودنے کا حکم دیا تو کچھ لوگ اس پر تیار ہو گئے کیونکہ انہوں نے اطاعت امیر والے مطلق حکم کو عام، یعنی ہر قسم کے حالات کو شامل سمجھا، لیکن اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکم مطلق کا اطلاق عام اور ہر قسم کے حالات پر ضروری نہیں بلکہ وہاں اطلاق ہو گا جہاں اللہ او اس کے رسولﷺ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو، اسی لیے رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس کی وضاحت فرما دی۔ (۵) ’’آگ ہی میں رہتے‘‘ یعنی ان کو قبر میں عذاب ہوتا۔ برزخی زندگی میں جہنم سے تعلق ہی کو عذاب قبر کہا جاتا ہے اور جنت سے تعلق کو ثواب قبر۔ اور جہنم میں غالب آگ ہی ہے۔