سنن النسائي - حدیث 4209

كِتَابُ الْبَيْعَةِ وَزِيرُ الْإِمَامِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّتِي تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وَلِيَ مِنْكُمْ عَمَلًا فَأَرَادَ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا جَعَلَ لَهُ وَزِيرًا صَالِحًا، إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4209

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل امام کا وزیر ( بھی نیک اور مخلص ہونا چاہیے) حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ میں نے اپنی پھوپھی (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو فرماتے سنا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص کسی کام کا ذمہ دار بنے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتری کا ارادہ فرمائے تو اس کے لیے اچھا وزیر مہیا فرما دیتا ہے۔ جو اس کو بھول جانے کی صورت میں اس کی ذمہ داری یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی (ذمہ داری کی ادائیگی میں) مدد کرتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ امام اور حاکم کے لیے اچھا، لائق و مخلص وزیر بنانا مشروع ہے تاکہ امارت کے اہم معاملات میں وہ امیر کا معاون و مددگار بنے اور امیر سے امارت کا کچھ بوجھ ہلکا کرے۔ (۲) بعض امراء و حکام پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم اور اس کی خصوصی عنایت و رحمت ہوتی ہے کہ وہ ان کو سچے، سُچے، خالص اور کھرے وزیر عطا فرماتا ہے جو اس کے مخلص معاون اور ہمدرد و خیر خواہ ہوتے ہیں۔ امر و امام اگر کوئی اہم بات بھول جائے تو وہ اسے یاد کراتے ہیں، اور اگر اسے یاد ہو تو اس سلسلے میں اس کا تعاون کرتے ہیں۔ (۳) امیر و حاکم کو مطلق العنان قطعاً نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کسی کے صلاح و مشورے کے من مانے فیصلے کرے، محض اپنی رائے اور پسند کو ترجیح دے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھے اور اپنی مرضی کی سیاست و سیادت اور حکمرانی کرے۔ ایسا کرنے سے رعایا کے بہت سے حقوق ضائع اور پامال ہوتے ہیں، بلکہ امیر و حاکم کو چاہیے کہ امین و دیانت دار، دین پر کاربند، پختہ فکر اور باعمل صاحب بصیرت و صاحب کردار وزیر و مشیر اپنائے جو اچھے مشوروں اور مثبت صلاحیتوں سے اس کی راہنمائی کریں۔ یہ معاملہ اس قدر اہم اور سنجیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ جو تمام تر اعلیٰ و افضل انسانی کمالات کے حامل، ذہانت و فطانت اور شرافت و نجابت کے بادشاہ تھے، نیز آپ کو وحیٔ الٰہی کی تائید بھی حاصل تھی، اس کے باوجود آپﷺ کو {وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ} کے امر سے حکماً مشاورت کا پابند کر دیا گیا۔ اس کے بعد تو اس مسئلے کی اہمیت کی بابت کسی مزید بات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ (۴) ’’وزیر‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ بوجھ اٹھانے والے کے ہیں۔ مراد اس سے ساتھی اور معاون ہے۔ اچھا ساتھی اور معاون بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ صرف حاکم کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ذمہ دار کے لیے حتیٰ کہ خاوند کے لیے اچھی بیوی بھی۔ (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ امام اور حاکم کے لیے اچھا، لائق و مخلص وزیر بنانا مشروع ہے تاکہ امارت کے اہم معاملات میں وہ امیر کا معاون و مددگار بنے اور امیر سے امارت کا کچھ بوجھ ہلکا کرے۔ (۲) بعض امراء و حکام پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم اور اس کی خصوصی عنایت و رحمت ہوتی ہے کہ وہ ان کو سچے، سُچے، خالص اور کھرے وزیر عطا فرماتا ہے جو اس کے مخلص معاون اور ہمدرد و خیر خواہ ہوتے ہیں۔ امر و امام اگر کوئی اہم بات بھول جائے تو وہ اسے یاد کراتے ہیں، اور اگر اسے یاد ہو تو اس سلسلے میں اس کا تعاون کرتے ہیں۔ (۳) امیر و حاکم کو مطلق العنان قطعاً نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کسی کے صلاح و مشورے کے من مانے فیصلے کرے، محض اپنی رائے اور پسند کو ترجیح دے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھے اور اپنی مرضی کی سیاست و سیادت اور حکمرانی کرے۔ ایسا کرنے سے رعایا کے بہت سے حقوق ضائع اور پامال ہوتے ہیں، بلکہ امیر و حاکم کو چاہیے کہ امین و دیانت دار، دین پر کاربند، پختہ فکر اور باعمل صاحب بصیرت و صاحب کردار وزیر و مشیر اپنائے جو اچھے مشوروں اور مثبت صلاحیتوں سے اس کی راہنمائی کریں۔ یہ معاملہ اس قدر اہم اور سنجیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ جو تمام تر اعلیٰ و افضل انسانی کمالات کے حامل، ذہانت و فطانت اور شرافت و نجابت کے بادشاہ تھے، نیز آپ کو وحیٔ الٰہی کی تائید بھی حاصل تھی، اس کے باوجود آپﷺ کو {وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ} کے امر سے حکماً مشاورت کا پابند کر دیا گیا۔ اس کے بعد تو اس مسئلے کی اہمیت کی بابت کسی مزید بات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ (۴) ’’وزیر‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ بوجھ اٹھانے والے کے ہیں۔ مراد اس سے ساتھی اور معاون ہے۔ اچھا ساتھی اور معاون بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ صرف حاکم کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ذمہ دار کے لیے حتیٰ کہ خاوند کے لیے اچھی بیوی بھی۔