سنن النسائي - حدیث 4202

كِتَابُ الْبَيْعَةِ النَّصِيحَةُ لِلْإِمَامِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: سَأَلْتُ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ قُلْتُ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِيكَ قَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ مِنَ الَّذِي، حَدَّثَ أَبِي، حَدَّثَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ: عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا الدِّينُ النَّصِيحَةُ» قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4202

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل امام کے ساتھ خلوص کا برتاؤ کیا جائے حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دین تو بس خلوص و خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کس سے؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے، اس کی کتاب سے، اس کے رسول سے، مسلمانوں کے حکام سے او عوام الناس سے۔‘‘
تشریح : دین اخلاص کا نام ہے۔ اخلاص نہ ہو تو شرک، نفاق، ریاکاری، دغا بازی اور دھوکا دہی جیسے قبیح اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے اخلاص یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرے، اسی کو پکارے، اسی پر بھروسا کرے اور اسی سے ڈرے۔ کتاب سے اخلاص یہ ہے کہ اس پر عمل کرے اور اس کا احترام کرے۔ رسول اللہﷺ سے اخلاص یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کرے، ہر چیز سے بڑھ کر محبت رکھے، آپ کے فرمان پر مر مٹے۔ آپ کے مقابلے میں کسی کی پروا نہ کرے۔ حکام سے اخلاص یہ ہے کہ ان کی بیعت کر کے ان سے وفادار رہے اور حتی الامکان شرعی حدود کے اندر ان کی اطاعت کرے۔ ان کے خلاف بغاوت نہ کرے۔ او عام مسلمانوں سے اخلاص یہ ہے کہ ان کا خیر خواہ رہے، ان کو دھوکا نہ دے، کسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے۔ دین اخلاص کا نام ہے۔ اخلاص نہ ہو تو شرک، نفاق، ریاکاری، دغا بازی اور دھوکا دہی جیسے قبیح اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے اخلاص یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرے، اسی کو پکارے، اسی پر بھروسا کرے اور اسی سے ڈرے۔ کتاب سے اخلاص یہ ہے کہ اس پر عمل کرے اور اس کا احترام کرے۔ رسول اللہﷺ سے اخلاص یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کرے، ہر چیز سے بڑھ کر محبت رکھے، آپ کے فرمان پر مر مٹے۔ آپ کے مقابلے میں کسی کی پروا نہ کرے۔ حکام سے اخلاص یہ ہے کہ ان کی بیعت کر کے ان سے وفادار رہے اور حتی الامکان شرعی حدود کے اندر ان کی اطاعت کرے۔ ان کے خلاف بغاوت نہ کرے۔ او عام مسلمانوں سے اخلاص یہ ہے کہ ان کا خیر خواہ رہے، ان کو دھوکا نہ دے، کسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے۔