سنن النسائي - حدیث 4200

كِتَابُ الْبَيْعَةِ التَّشْدِيدُ فِي عِصْيَانِ الْإِمَامِ حسن أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالَ: حَدَّثَنَا بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْغَزْوُ غَزْوَانِ: فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَتَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا رِيَاءً، وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِالْكَفَافِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4200

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل امام ( شرعی حکمران ) کی نافرمانی پر سخت وعید حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی نیت کرے، امام کی اطاعت کرے اور قیمتی مال (جہاد میں) صرف کرے اور فساد سے بچے تو اس کا سونا جاگنا سب اس کے لیے ثواب کا ذریعہ ہیں۔ لیکن جو شخص ریاکاری اور شہرت کے لیے لڑائی کرے، امام کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد پھیلائے، وہ تو پہلی حالت میں بھی واپس نہیں لوٹے گا۔‘‘
تشریح : (۱) حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہَا۔(۲) اس حدیث سے ریاکاری، شہرت اور فساد فی الارض کی مذمت ثابت ہوتی ہے، نیز ان کاموںڈ سے نہ صرف نیکیاں برباد ہوتی ہیں بلکہ اس کا مرتکب شخص گناہوں کا بہت بڑا بوجھ بھی اٹھا لیتا ہے۔ (۳) وہ مجاہد جو حدیث میں مذکور صفات کا حامل ہو گا وہی جہاد کے فضائل حاصل کر سکے گا وگرنہ جو امیر کا نافرمان ہو گا وہ جہاد کی فضیلت حاصل نہیں کر پائے گا۔ (۴) ’’فساد سے بچے‘‘ باہمی فساد مراد ہے، یعنی آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرے اس سے مسلمانوں میں آپس میں پھوٹ پڑے گی اور کافروں پر ان کا رعب ختم ہو جائے گا۔ (۵) ’’پہلی حالت میں بھی واپس نہیں لوٹے گا‘‘ یعنی جاد سے پہلے والے اعمال بھی برقرار نہیں رہیں گے بلکہ اس قسم کے جہاد کا گناہ پہلے سے کیے ہوئے بہت سے اعمال کے ثواب کو بھی ضائع کر دے گا، چہ جائیکہ اس جہاد کا ثواب ملے جبکہ صحیح نیت اور طریقے کے ساتھ جہاد کرنے سے جہاد کے علاوہ عادی امور کا بھی ثواب ملے گا، مثلاً: سونا، چلنا، پھرنا اور کھانا، پینا وغیرہ۔ (۱) حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہَا۔(۲) اس حدیث سے ریاکاری، شہرت اور فساد فی الارض کی مذمت ثابت ہوتی ہے، نیز ان کاموںڈ سے نہ صرف نیکیاں برباد ہوتی ہیں بلکہ اس کا مرتکب شخص گناہوں کا بہت بڑا بوجھ بھی اٹھا لیتا ہے۔ (۳) وہ مجاہد جو حدیث میں مذکور صفات کا حامل ہو گا وہی جہاد کے فضائل حاصل کر سکے گا وگرنہ جو امیر کا نافرمان ہو گا وہ جہاد کی فضیلت حاصل نہیں کر پائے گا۔ (۴) ’’فساد سے بچے‘‘ باہمی فساد مراد ہے، یعنی آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرے اس سے مسلمانوں میں آپس میں پھوٹ پڑے گی اور کافروں پر ان کا رعب ختم ہو جائے گا۔ (۵) ’’پہلی حالت میں بھی واپس نہیں لوٹے گا‘‘ یعنی جاد سے پہلے والے اعمال بھی برقرار نہیں رہیں گے بلکہ اس قسم کے جہاد کا گناہ پہلے سے کیے ہوئے بہت سے اعمال کے ثواب کو بھی ضائع کر دے گا، چہ جائیکہ اس جہاد کا ثواب ملے جبکہ صحیح نیت اور طریقے کے ساتھ جہاد کرنے سے جہاد کے علاوہ عادی امور کا بھی ثواب ملے گا، مثلاً: سونا، چلنا، پھرنا اور کھانا، پینا وغیرہ۔