سنن النسائي - حدیث 42

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ الرُّخْصَةُ فِي الِاسْتِطَابَةِ بِحَجَرَيْنِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ لَيْسَ أَبُو عُبَيْدَةَ ذَكَرَهُ وَلَكِنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَائِطَ وَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ وَالْتَمَسْتُ الثَّالِثَ فَلَمْ أَجِدْهُ فَأَخَذْتُ رَوْثَةً فَأَتَيْتُ بِهِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ وَقَالَ هَذِهِ رِكْسٌ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ الرِّكْسُ طَعَامُ الْجِنِّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 42

کتاب: امور فطرت کا بیان (بحالت مجبوری)دو ڈھیلوں سے صفائی کرنے کی رخصت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ک نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کو گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں تین ڈھیلے لاؤں۔ مجھے دو ڈھیلے تو مل گئے تیسرا تلاش کیا مگر نہ ملا۔ سو میں نے لید کا ٹکڑا اٹھا لیا اور انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ نے ڈھیلے تو لے لیے، جب کہ لید پھنک دی اور فرمایا ’’یہ تو پلید ہے۔‘‘ امام ابو عبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ نے فرمایا: [رکس] کے معنی ’’جنوں کی خوراک‘‘ ہے۔
تشریح : (۱)امام نسائی رحمہ اللہ حدیث میں مذکور لفظ [رِکْسٌ] کا مطلب بیان کر رہے ہیں، مگر یہ معنی لغت کی کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ ممکن ہے امام صاحب کا مطلب یہ ہو کہ لید سے استنجا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جنوں کی خوراک ہے، نہ یہ کہ وہ پلید ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲)سنن نسائئی کی اس حدیث میں تو یہاں اتنے ہی الفاظ ہیں مگر مسند احمد میں اس کے بعد یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ نے فرمایا: [إئتني بحجر] ’’ایک ڈھیلا اور لا۔‘‘ (مسند احمد: ۴۵۰/۱) اس سے گویا دو ڈھیلوں پر اکتفا ثابت نہ ہوا بلکہ اس سے تو تین ڈھیلوں کی شرطیت اخذ ہوتی ہے۔ اگر بالفرض بہ امر مجبوری دو یا ایک ڈھیلا ہی ہو تو انھیں بھی مختلف اطراف سے احتیاط کے ساتھ تین دفعہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (التبیان في تخریج و تبویب أحادیث بلوغ المرام: ۲۱۴،۲۱۳/۳) (۱)امام نسائی رحمہ اللہ حدیث میں مذکور لفظ [رِکْسٌ] کا مطلب بیان کر رہے ہیں، مگر یہ معنی لغت کی کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ ممکن ہے امام صاحب کا مطلب یہ ہو کہ لید سے استنجا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جنوں کی خوراک ہے، نہ یہ کہ وہ پلید ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲)سنن نسائئی کی اس حدیث میں تو یہاں اتنے ہی الفاظ ہیں مگر مسند احمد میں اس کے بعد یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ نے فرمایا: [إئتني بحجر] ’’ایک ڈھیلا اور لا۔‘‘ (مسند احمد: ۴۵۰/۱) اس سے گویا دو ڈھیلوں پر اکتفا ثابت نہ ہوا بلکہ اس سے تو تین ڈھیلوں کی شرطیت اخذ ہوتی ہے۔ اگر بالفرض بہ امر مجبوری دو یا ایک ڈھیلا ہی ہو تو انھیں بھی مختلف اطراف سے احتیاط کے ساتھ تین دفعہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (التبیان في تخریج و تبویب أحادیث بلوغ المرام: ۲۱۴،۲۱۳/۳)