سنن النسائي - حدیث 4184

كِتَابُ الْبَيْعَةِ بَيْعَةُ النِّسَاءِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: لَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أُبَايِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَةً أَسْعَدَتْنِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَذْهَبُ فَأُسْعِدُهَا ثُمَّ أَجِيئُكَ فَأُبَايِعُكَ؟ قَالَ: «اذْهَبِي فَأَسْعِدِيهَا» قَالَتْ: فَذَهَبْتُ فَسَاعَدْتُهَا، ثُمَّ جِئْتُ فَبَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4184

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل عورتوں سے بیعت لینا حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے رسول اﷲﷺ کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! ایک عورت نے دور جاہلیت میں نوحہ کرنے میں مدد کی تھی۔ میں جاکر اس کی مدد کرکے آتی ہوں، پھر آکر آپ کی بیعت کروں گی۔ آپ نے فرمایا: ’’ جا‘ اس کی مدد کرآ۔ ‘‘ میں گئی اور میں نے اس کی مدد کا اسے بدلہ دیا، پھر میں آئی اور رسول اﷲﷺ کی بیعت کی۔
تشریح : 1۔ترجمتہ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ عورتوں سے بیعت لینا مشروع ہے جیسا کہ خود رسول اﷲﷺ نے عورتوں سے بیعت لی تھی۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا حرام اور ناجائز ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ شرعاََ یہ بہت قبیح کام ہے، اس لیے اس سے روکنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر اس سلسلے میں ڈانٹ ڈپٹ سے کام لینا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت منقول ہے کہ وہ کسی کی وفات پر اگر کسی کو غلط انداز میں اور غیر شرعی رونا روتے دیکھتے تو اسے پتھر وغیرہ مارتے اور اس رونے والے شخص کے منہ میں مٹی ٹھونستے۔ دیکھیے: حرمت نوحہ کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاََ: یہ جاہلیت کے کاموں میں سے ہے، غم زیادہ اور صبر نہ کرنے کا سبب بنتا ہے، نیز نوحہ کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی قضا و قدر کی مخالفت اور اس پر عدم رضا لازم آتی ہے۔ ۳ حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شارع ﷺ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جب چاہیں اور جس کے لیے چاہیں عام قانون میں تخصیص فرما دیں جس طرح کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے لیے تخصیص کی گئی۔ ۴’’ ایک عورت نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی‘‘ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی گھر کوئی میت ہوتی تو دوسری عورتیں باری باری اس کے گھر کی عورتوں سے مل کر جھوٹ موٹ کرتیں اور زبانی رونا روتیں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بیعت کرنے لگیں تو آپ نے بیعت کے وقت نوحہ نہ کرنے کا بھی ذکر فرمایا۔ان کو خیال آیا کہ فلاں عورت نے بیعت سے متعلق احکام ومسائل تو نوحہ میں میری مدد کی تھی۔ اور جاہلیت میں اس مدد کو بھی لین دین کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اس کا باقاعدہ مطالبہ ہوتا تھا۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ ہوا کہ کل کلاں وہ عورت آکر مجھ سے بدلے کا مطالبہ کرے گی، اس لیے مجھے بیعت سے پہلے ہی بدلہ چکا دینا چاہیے۔ 1۔ترجمتہ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ عورتوں سے بیعت لینا مشروع ہے جیسا کہ خود رسول اﷲﷺ نے عورتوں سے بیعت لی تھی۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا حرام اور ناجائز ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ شرعاََ یہ بہت قبیح کام ہے، اس لیے اس سے روکنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر اس سلسلے میں ڈانٹ ڈپٹ سے کام لینا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت منقول ہے کہ وہ کسی کی وفات پر اگر کسی کو غلط انداز میں اور غیر شرعی رونا روتے دیکھتے تو اسے پتھر وغیرہ مارتے اور اس رونے والے شخص کے منہ میں مٹی ٹھونستے۔ دیکھیے: حرمت نوحہ کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاََ: یہ جاہلیت کے کاموں میں سے ہے، غم زیادہ اور صبر نہ کرنے کا سبب بنتا ہے، نیز نوحہ کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی قضا و قدر کی مخالفت اور اس پر عدم رضا لازم آتی ہے۔ ۳ حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شارع ﷺ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جب چاہیں اور جس کے لیے چاہیں عام قانون میں تخصیص فرما دیں جس طرح کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے لیے تخصیص کی گئی۔ ۴’’ ایک عورت نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی‘‘ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی گھر کوئی میت ہوتی تو دوسری عورتیں باری باری اس کے گھر کی عورتوں سے مل کر جھوٹ موٹ کرتیں اور زبانی رونا روتیں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بیعت کرنے لگیں تو آپ نے بیعت کے وقت نوحہ نہ کرنے کا بھی ذکر فرمایا۔ان کو خیال آیا کہ فلاں عورت نے بیعت سے متعلق احکام ومسائل تو نوحہ میں میری مدد کی تھی۔ اور جاہلیت میں اس مدد کو بھی لین دین کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اس کا باقاعدہ مطالبہ ہوتا تھا۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ ہوا کہ کل کلاں وہ عورت آکر مجھ سے بدلے کا مطالبہ کرے گی، اس لیے مجھے بیعت سے پہلے ہی بدلہ چکا دینا چاہیے۔