كِتَابُ الْبَيْعَةِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ فِي انْقِطَاعِ الْهِجْرَةِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ: «لَا هِجْرَةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، فَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا»
کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل
باب : انقطاع ہجرت کی بابت اختلاف کا ذکر
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ بیعت سے متعلق احکام ومسائل رسول اﷲﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ‘‘ اب (مکہ سے) ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں‘ البتہ جہاد کرو اور نیت رکھو۔جب تم سے جہاد کے لیے گھروں سے نکلنے کو کہا جائے تو نکلنے ۔‘‘
تشریح :
1)لا ھجرۃ‘‘اس کے یہ معنی درست نہیں کہ اب ہجرت بالکل ختم ہو چکی ہے‘ کوئی مسلمان دار الکفر میں‘ خواہ کسی بھی حالت میں ہوا‘اس کے لیے دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا جائز نہیں بلکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے ہجرت نہیں جیسا کہ امام نو ویؒ نے فرمایا: ہمارے اصحاب اور دیگر علماء نے کہا ہے: دارالحرب سے سے دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا قیامت تک باقی ہے‘ چنانچہ انھوں نے مذکوہ حدیث مبارکہ کی دو تو جیہیں فرمائی ہیں: ایک تو یہ کہ فتح مکہ کے بعد‘ مکہ سے ہجرت نہیں کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ اس لیے وہاں سے ہجرت کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔اور دوسری توجیہ یہ کہ وہ فضیلت والی اہم ہجرت جو (ابتدائے اسلام میں) مطلوب تھی اور جس کے فاعل ممتاز حیثیت کے حامل بن گئے‘ اب مکہ سے وہ ہجرت ختم ہوچکی ہے۔ اس ہجرت کا اعزاز جس جس کے مقدر میں تھا‘ وہ ہر اس شخص کو مل چکا ہے جس نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کرلی۔ اب (فتح مکہ کے بعد) ہجرت کرنے کا وہ اعزاز کسی اور کو نہیں مل سکتا‘ اس لیے کہ فتح مکہ کے بعد اسلام معزز اور مضبوط ہوچکا ہے۔دیکھیے: ہجرت کے متعلق کے مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:اس حدیث میں ہے کہ اب ہجرت نہیں رہی جبکہ بعد والی احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی۔ ظاہراََ ان حادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے‘ حالانکہ ان میں کرئی تضاد نہیں بلکہ ان احادیث میں تطبیق ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ جن احادیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوچکی ‘ اس مفہوم یہ ہے کہ جو ہجرت فتح مکہ سے پہلے‘ یعنی ابتدائے اسلام میں فرض تھی‘ وہ اب ختم ہوگئی ہے کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ لہٰذا وہاں سے ہجرت کرنا باقی نہیں رہی۔ اور جن احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہر دارا لحرب سے‘ دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا باقی ہے۔ اس صورت میں دارا لحرب سے ہر زمانے میں ہجرت کی جائے گی اور ایسی ہجرت قیامت تک باقی ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے‘ چنانچہ جب کچھ لوگوں کے کرنے سے کفایت ہو جائے تو پھر باقی لوگوں سے جہاد ساقط ہو جائے گا‘ ہاں! اگر تمام لوگ جہاد کرنا چھوڑ دیں تو اس صورت میں سب گناہ گار ہوں گے۔ اس بیعت سے متعلق احکام وسائل حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب امام جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے تو ہر اس شخص کے لیے نکلنا ضروری ہو گا جسے امام حکم دے۔ امام قرطبیؒ نے اس مسئلے کے متعلق اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ یہ حدیث ہر خیر اور بھلائی کے قول وعمل کا شوق دلاتی ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر نیت خیر پر اجرو ثواب ہے، نیز ہر برائی اور عمل شر سے اجتناب کی نیت بھی باعث اجر ہے۔
1)لا ھجرۃ‘‘اس کے یہ معنی درست نہیں کہ اب ہجرت بالکل ختم ہو چکی ہے‘ کوئی مسلمان دار الکفر میں‘ خواہ کسی بھی حالت میں ہوا‘اس کے لیے دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا جائز نہیں بلکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے ہجرت نہیں جیسا کہ امام نو ویؒ نے فرمایا: ہمارے اصحاب اور دیگر علماء نے کہا ہے: دارالحرب سے سے دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا قیامت تک باقی ہے‘ چنانچہ انھوں نے مذکوہ حدیث مبارکہ کی دو تو جیہیں فرمائی ہیں: ایک تو یہ کہ فتح مکہ کے بعد‘ مکہ سے ہجرت نہیں کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ اس لیے وہاں سے ہجرت کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔اور دوسری توجیہ یہ کہ وہ فضیلت والی اہم ہجرت جو (ابتدائے اسلام میں) مطلوب تھی اور جس کے فاعل ممتاز حیثیت کے حامل بن گئے‘ اب مکہ سے وہ ہجرت ختم ہوچکی ہے۔ اس ہجرت کا اعزاز جس جس کے مقدر میں تھا‘ وہ ہر اس شخص کو مل چکا ہے جس نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کرلی۔ اب (فتح مکہ کے بعد) ہجرت کرنے کا وہ اعزاز کسی اور کو نہیں مل سکتا‘ اس لیے کہ فتح مکہ کے بعد اسلام معزز اور مضبوط ہوچکا ہے۔دیکھیے: ہجرت کے متعلق کے مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:اس حدیث میں ہے کہ اب ہجرت نہیں رہی جبکہ بعد والی احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی۔ ظاہراََ ان حادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے‘ حالانکہ ان میں کرئی تضاد نہیں بلکہ ان احادیث میں تطبیق ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ جن احادیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوچکی ‘ اس مفہوم یہ ہے کہ جو ہجرت فتح مکہ سے پہلے‘ یعنی ابتدائے اسلام میں فرض تھی‘ وہ اب ختم ہوگئی ہے کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ لہٰذا وہاں سے ہجرت کرنا باقی نہیں رہی۔ اور جن احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہر دارا لحرب سے‘ دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا باقی ہے۔ اس صورت میں دارا لحرب سے ہر زمانے میں ہجرت کی جائے گی اور ایسی ہجرت قیامت تک باقی ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے‘ چنانچہ جب کچھ لوگوں کے کرنے سے کفایت ہو جائے تو پھر باقی لوگوں سے جہاد ساقط ہو جائے گا‘ ہاں! اگر تمام لوگ جہاد کرنا چھوڑ دیں تو اس صورت میں سب گناہ گار ہوں گے۔ اس بیعت سے متعلق احکام وسائل حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب امام جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے تو ہر اس شخص کے لیے نکلنا ضروری ہو گا جسے امام حکم دے۔ امام قرطبیؒ نے اس مسئلے کے متعلق اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ یہ حدیث ہر خیر اور بھلائی کے قول وعمل کا شوق دلاتی ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر نیت خیر پر اجرو ثواب ہے، نیز ہر برائی اور عمل شر سے اجتناب کی نیت بھی باعث اجر ہے۔