سنن النسائي - حدیث 4171

كِتَابُ الْبَيْعَةِ تَفْسِيرُ الْهِجْرَةِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لِأَنَّهُمْ هَجَرُوا الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ مِنَ الْأَنْصَارِ مُهَاجِرُونَ لِأَنَّ الْمَدِينَةَ كَانَتْ دَارَ شِرْكٍ، فَجَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4171

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل ہجرت کی ایک تشریح حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ اور ابوبکر وعمرؓ اس لیے مہاجر تھے کہ انھوں نے مشرکین(اور ان کے علاقے)کو چھوڑ دیا تھا۔اور انصار میں سے بھی لوگ مہاجر تھے کیو نکہ مدینہ بھی(آپ کی تشریف آوری سے پہلے)شرک اور مشرکین کا علاقہ تھا‘چنانچہ کچھ انصار عقبہ کی رات رسول اﷲﷺکے پاس (مکہ مکرمہ)چلے آئے تھے۔
تشریح : حضرت ابن عباس ؓ انتہائی ذہین شخص تھے۔انھوں نے یہ لطیف نکتہ پیدا کیا کہ اگر گھر بار چھوڑ کر جانے کی وجہ سے کوئی شخص مہاجربن سکتا ہے تو وہ انصار جو بیعت کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تھے‘وہ بھی مہاجر تھے کیونکہ وہ مدینہ چھوڑ کرآپ کے پاس گئے تھے اور آپ کے حکم سے دوبار مدینہ آئے تھے۔اسی طرح مہاجرین کو بھی انصار کہاجاسکتا ہے کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر آپ کا ساتھ دیا اور آپ مدد کی۔اور مدد کرنے والوں کو لغت کے لحاظ سے انصار کہاجاسکتا ہے۔یہ صرف ایک نکتہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مہاجرین وہی تھے جنھوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ دیے۔حتیٰ کہ مکہ فتح ہونے پر باوجود دارالاسلام بن جانے کے وہاں ٹہرنا پسند نہ کیا۔اور انصار وہی تھے جنھوں نے اپنا شہر‘اپنے گھر اپنی زمینیں‘اپنی جائیدادیں حتیٰ کہ اپنی جانیں رسول اﷲﷺ کو پیش کردیں۔’’عقبہ کی رات‘‘یہ رات دارصل دو راتیں تھیں۔ایک ۲۱ نبوت میں جسے لیلہ عقبہ اولیٰ کہاجاتا ہے اور دوسری۱۳ بنوت میںجسے لیلہ عقبہ ثانیہ کہاجاتا ہے۔عقبہ منیٰ سے مکہ کی طرف آخری کمرے کا نام ہے۔اس جمرے کے پاس رسول اﷲﷺ نے مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تھی،یہ ۱۱ نبوت کی بات ہے۔وہ چھ آدمی تھے،انھوں نے آئندہ سال آپ نے ملنے کا وعدہ کیا اور دمدینہ جاکر آپ کی دعوت مدینہ والوں کے سامنے پیش کی۔۱۲ نبوت میں حج کے بعد بارہ آدمی اس جمرے کے پاس آپ کو ملے‘اسلام قبول کیا اور آپ کی بیعت کی۔آپ نے ان کے ساتھ مبلغ بھی بھیج دیا۔اگلے سال۱۳ نبوت میں حج کے بعد اسی جمرے کے پاس ستر(۷۰)سے زیادہ انصار نے آپ کی بیعت کی اور آپ سے مدینہ چلنے کی درخواست کی۔آپ نے اسے قبول فرمایا اور مناسب وقت پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ حضرت ابن عباس ؓ انتہائی ذہین شخص تھے۔انھوں نے یہ لطیف نکتہ پیدا کیا کہ اگر گھر بار چھوڑ کر جانے کی وجہ سے کوئی شخص مہاجربن سکتا ہے تو وہ انصار جو بیعت کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تھے‘وہ بھی مہاجر تھے کیونکہ وہ مدینہ چھوڑ کرآپ کے پاس گئے تھے اور آپ کے حکم سے دوبار مدینہ آئے تھے۔اسی طرح مہاجرین کو بھی انصار کہاجاسکتا ہے کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر آپ کا ساتھ دیا اور آپ مدد کی۔اور مدد کرنے والوں کو لغت کے لحاظ سے انصار کہاجاسکتا ہے۔یہ صرف ایک نکتہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مہاجرین وہی تھے جنھوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ دیے۔حتیٰ کہ مکہ فتح ہونے پر باوجود دارالاسلام بن جانے کے وہاں ٹہرنا پسند نہ کیا۔اور انصار وہی تھے جنھوں نے اپنا شہر‘اپنے گھر اپنی زمینیں‘اپنی جائیدادیں حتیٰ کہ اپنی جانیں رسول اﷲﷺ کو پیش کردیں۔’’عقبہ کی رات‘‘یہ رات دارصل دو راتیں تھیں۔ایک ۲۱ نبوت میں جسے لیلہ عقبہ اولیٰ کہاجاتا ہے اور دوسری۱۳ بنوت میںجسے لیلہ عقبہ ثانیہ کہاجاتا ہے۔عقبہ منیٰ سے مکہ کی طرف آخری کمرے کا نام ہے۔اس جمرے کے پاس رسول اﷲﷺ نے مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تھی،یہ ۱۱ نبوت کی بات ہے۔وہ چھ آدمی تھے،انھوں نے آئندہ سال آپ نے ملنے کا وعدہ کیا اور دمدینہ جاکر آپ کی دعوت مدینہ والوں کے سامنے پیش کی۔۱۲ نبوت میں حج کے بعد بارہ آدمی اس جمرے کے پاس آپ کو ملے‘اسلام قبول کیا اور آپ کی بیعت کی۔آپ نے ان کے ساتھ مبلغ بھی بھیج دیا۔اگلے سال۱۳ نبوت میں حج کے بعد اسی جمرے کے پاس ستر(۷۰)سے زیادہ انصار نے آپ کی بیعت کی اور آپ سے مدینہ چلنے کی درخواست کی۔آپ نے اسے قبول فرمایا اور مناسب وقت پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔