سنن النسائي - حدیث 4170

كِتَابُ الْبَيْعَةِ هِجْرَةُ الْبَادِي صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ عَزَّ وَجَلَّ»، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْهِجْرَةُ هِجْرَتَانِ: هِجْرَةُ الْحَاضِرِ، وَهِجْرَةُ الْبَادِي، فَأَمَّا الْبَادِي، فَيُجِيبُ إِذَا دُعِيَ وَيُطِيعُ إِذَا أُمِرَ، وَأَمَّا الْحَاضِرُ، فَهُوَ أَعْظَمُهُمَا بَلِيَّةً، وَأَعْظَمُهُمَا أَجْرًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4170

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل دیہاتی و بدوی کی ہجرت حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا:اے اﷲ کے رسول !ہجرت کون سی افضل ہے؟آپ نے فرمایا:’’یہ کہ تو ان کوموں کو چھوڑدے جنھیں تیرا رب تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔‘‘نیز رسول اﷲﷺ نے فرمایا:’’ہجرت دوقسم کی ہوتی ہے۔ایک تو شہری کی ہجرت‘دوسری بدوی(اعرابی)کی ہجرت۔بدوی کاکام یہ ہے کہ جب اسے بلایا جائے تو وہ آجائے اور جب اسے حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے لیکن شہری کو مشقت بھی زیادہ ہے اور ثواب بھی۔‘‘
تشریح : ’’ان کاموں کو چھوڑ دے ‘‘ہجرت کے لغوی معنی چھوڑ دینے کے ہیں۔معرف ہجرت میں گھر بار‘رشتہ دارو اور مال ومنال چھوڑا جاتا ہے۔آپ نے اس لحاظ سے فرمایا کہ افضل ہجرت گناہوں کو چھوڑنا ہے کیونکہ ہجرت بھی تودین کے تحفظ کے لیے کی جاتی ہے۔گناہوں کے چھوڑنے سے بھی دین محفوظ ہوجاتا ہے۔اگر گناہ نہ چھوڑنا‘وطن چھوڑنے سے بہتر ہے اور ہجرت میں بھی وطن چھوڑنے کا اصل مقصد تو گناہ چھوڑنا اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہی ہے۔’’جب اسے بلایا جائے‘‘یعنی جب اسے جہاد کے لیے بلایا جائے تو وہ آجائے۔اور اپنے گھر میں رہ کر شریعت پر عمل کرتا رہے۔گاؤں اور قبائل کے رہنے والوں پر ہجرت فرض نہٰں تھی جبکہ مکہ شہر میں رہنے والے مسلمانوں پر ہجرت فرض تھی لہٰذا شہری کے لیے مشقت بھی زیادہ اور اس کا اجر بھی زیادہ تھا۔ ’’ان کاموں کو چھوڑ دے ‘‘ہجرت کے لغوی معنی چھوڑ دینے کے ہیں۔معرف ہجرت میں گھر بار‘رشتہ دارو اور مال ومنال چھوڑا جاتا ہے۔آپ نے اس لحاظ سے فرمایا کہ افضل ہجرت گناہوں کو چھوڑنا ہے کیونکہ ہجرت بھی تودین کے تحفظ کے لیے کی جاتی ہے۔گناہوں کے چھوڑنے سے بھی دین محفوظ ہوجاتا ہے۔اگر گناہ نہ چھوڑنا‘وطن چھوڑنے سے بہتر ہے اور ہجرت میں بھی وطن چھوڑنے کا اصل مقصد تو گناہ چھوڑنا اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہی ہے۔’’جب اسے بلایا جائے‘‘یعنی جب اسے جہاد کے لیے بلایا جائے تو وہ آجائے۔اور اپنے گھر میں رہ کر شریعت پر عمل کرتا رہے۔گاؤں اور قبائل کے رہنے والوں پر ہجرت فرض نہٰں تھی جبکہ مکہ شہر میں رہنے والے مسلمانوں پر ہجرت فرض تھی لہٰذا شہری کے لیے مشقت بھی زیادہ اور اس کا اجر بھی زیادہ تھا۔