كِتَابُ الْغُسْلِ وَالتَّيَمُّمِ بَاب إِذَا تَطَيَّبَ وَاغْتَسَلَ وَبَقِيَ أَثَرُ الطِّيبِ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ وَكِيعٍ عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ لَأَنْ أُصْبِحَ مُطَّلِيًا بِقَطِرَانٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنَضَخُ طِيبًا فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرْتُهَا بِقَوْلِهِ فَقَالَتْ طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ عَلَى نِسَائِهِ ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا
کتاب: غسل اور تیمم سے متعلق احکام و مسائل
جب کوئی خوشبو لگا کر وضو کرے اور خوشبو کے اثرات باقی رہ جائیں تو؟
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں اپنے جسم پر تارکول ملوں یہ مجھے اس بات سے اچھا لگتا ہے کہ میں احرام باندھوں اور مجھ سے خوشبو کی مہک آرہی ہو۔ (ان کے شاگرد محمد بن منتشر نے کہا) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات بتلائی تو انھوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی، آپ اپنی سب عورتوں کے پاس گئے اور پھر غسل کرکے احرام باندھا۔
تشریح :
(۱) اس روایت کے ایک طریق میں [ینضخ طیبا] یعنی جب آپ غسل کرکے احرام باندھتے تھے تو آپ سے خوشبو کی مہک آرہی ہوتی تھی۔ کے الفاظ مروی ہیں۔ دیکھیے، حدیث۴۳۱۔ (۲) مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی جائے اس کے بعد باوجود غسل کرنے کے اس کی مہک ختم نہ ہو تو کیا یہ چیز احرام کے منافی ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اسے منافی سمجھتے تھے، مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے واضح فرمایا کہ احرام کی حالت میں خوشبو لگانا منع ہے۔ احرام سے قبل لگائی ہوئی خوشبو کی مہک ممنوع نہیں کیونکہ بسااوقات باوجود دھونے اور غسل کے مہک ختم نہیں ہوتی، لہٰذا محرم معذور ہوگا۔ اس کے ذمے غسل کرنا تھا، وہ اس نے کرلیا۔ مہک ختم نہ ہو تو اس کا کوئی قصور نہیں اور یہی بات شرع کے اصول و مقاصد سے مناسبت رکھتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل بھی اسی کا موید ہے۔ (۳) چونکہ یہ باب احرام سے خاص نہیں بلکہ عام غسل سے متعلق ہے، لہٰذا باب کا مقصود یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غسل کے لیے ضروری نہیں کہ مبالغے کے ساتھ مل مل کر دھویا جائے کہ جسم کو لگی ہوئی چیزوں کے اثرات بھی ختم ہوجائیں بلکہ سادہ پانی بہالینا کافی ہے۔ کوئی جگہ خشک نہ رہے اور نجاست زائل ہوجائے۔ ویسے امام مالک رحمہ اللہ نے غسل میں ’’دلک‘‘ یعنی ملنے کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ پانی ہر جگہ پہنچ سکے۔
(۱) اس روایت کے ایک طریق میں [ینضخ طیبا] یعنی جب آپ غسل کرکے احرام باندھتے تھے تو آپ سے خوشبو کی مہک آرہی ہوتی تھی۔ کے الفاظ مروی ہیں۔ دیکھیے، حدیث۴۳۱۔ (۲) مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی جائے اس کے بعد باوجود غسل کرنے کے اس کی مہک ختم نہ ہو تو کیا یہ چیز احرام کے منافی ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اسے منافی سمجھتے تھے، مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے واضح فرمایا کہ احرام کی حالت میں خوشبو لگانا منع ہے۔ احرام سے قبل لگائی ہوئی خوشبو کی مہک ممنوع نہیں کیونکہ بسااوقات باوجود دھونے اور غسل کے مہک ختم نہیں ہوتی، لہٰذا محرم معذور ہوگا۔ اس کے ذمے غسل کرنا تھا، وہ اس نے کرلیا۔ مہک ختم نہ ہو تو اس کا کوئی قصور نہیں اور یہی بات شرع کے اصول و مقاصد سے مناسبت رکھتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل بھی اسی کا موید ہے۔ (۳) چونکہ یہ باب احرام سے خاص نہیں بلکہ عام غسل سے متعلق ہے، لہٰذا باب کا مقصود یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غسل کے لیے ضروری نہیں کہ مبالغے کے ساتھ مل مل کر دھویا جائے کہ جسم کو لگی ہوئی چیزوں کے اثرات بھی ختم ہوجائیں بلکہ سادہ پانی بہالینا کافی ہے۔ کوئی جگہ خشک نہ رہے اور نجاست زائل ہوجائے۔ ویسے امام مالک رحمہ اللہ نے غسل میں ’’دلک‘‘ یعنی ملنے کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ پانی ہر جگہ پہنچ سکے۔