سنن النسائي - حدیث 4167

كِتَابُ الْبَيْعَةِ الْبَيْعَةُ عَلَى الْجِهَادِ صحيح أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:: «أَلَا تُبَايِعُونِي عَلَى مَا بَايَعَ عَلَيْهِ النِّسَاءُ، أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ؟» قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَمَنْ أَصَابَ بَعْدَ ذَلِكَ شَيْئًا فَنَالَتْهُ عُقُوبَةٌ فَهُوَ كَفَّارَةٌ، وَمَنْ لَمْ تَنَلْهُ عُقُوبَةٌ فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4167

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل جہاد کی بیعت حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:’’کیا تم ان کاموںکی مجھ سے بیعت نہیں کرتے جن کی عورتوں نے بیعت کی ہے؟کہ تم اﷲتعالیٰ کے ساتھ کسی وک شریک نہیں ٹھہراؤ گے‘ چوری نہیں کرو گے‘زنانہیں کرو گے‘ اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے‘کسی پر اپنی طرف سے گھڑکر بہتان نہیں باندھو کروگے اور کسی اچھے کام میں میری نافرانی نہیں کرو گے۔‘‘ہم نے کہا:اے اﷲ کے رسول ! کیوں نہیں؟(ہم بیعت کریں) پھر ہم ان کاموں پر رسول اﷲﷺ کی بیعت کی۔رسول ا ﷲﷺ نے فرمایا:’’اس کے بعد جس نے ان میں سے کوئی کام کیا اور اس کو سزا مل گئی تو وہ سزا اس کا معاملہ اﷲ تعالیٰ دے گی اور جس کو(دنیا میں ) سزا نہ ملی تو اس کا معاملہ اﷲتعالیٰ کے سپرد ہے‘چاہے وہ اسے معاف فرمادے‘چاہے سزادے۔‘‘
تشریح : یہ روایت اور سابقہ روایت متعلقہ باب سے تعلق نہیں رکھتیں کیو نکہ ان میں جہاد کا کوئی ذکر نہیں‘البتہ اصل باب‘یعنی بیعت سے مسائل سے تعلق ہے۔الا یہ کہ کہا جائے کہ’’اچھے اور نیکی کے کام‘‘میں جہاد بھی داخل ہے،’’عورتوں نے بیعت کی‘‘جب کوئی عورت مکہ سے ہجرت کرکے آپ کے پاس پہنچتی اور مسلمان ہوتی تو آپ اس سے مندرجہ بالا الفاظ کے ساتھ بیعت لیتے تھے،سورہ ممتحنہ ‘‘آیت نمبر:۱۴ میں آپ کو ان الفاظ کے ساتھ عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا تھا مگر یادر ہے کہ رسول اﷲﷺ نے کسی عورت سے معروف بیعت(درست مبارک سے)نہیں لی بلکہ آپ عورتوں سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے۔ساری زندگی آپ کادست مبارک کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔’’کسی اچھے کام میں ‘‘یہ لفظ عرفاََ آگئے ہیں ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کسی برے کام کا حکم دیں۔’’مٹا دے گی‘‘معلوم ہوا کہ دنیا میں ملنے والی شرعی سزا گناہ کو مٹا دیتی ہے۔اﷲتعالیٰ اس کی پوچھ گچھ نہیں فرمائے گا۔ احناف کے نزدیک گناہ کی معافی کیک لیے توجہ بھی ضروری ہے۔سزا تو صرف آئندہ روکنے اور عبرت کے لیے ہے لیکن حدیث کے ظاہر الفاظ اس کے خلاف ہیں۔’’اﷲتعالیٰ کے سپرد ہے‘‘پردہ پوشی کے بعد اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے امید یہی ہے کہ معاف فرمادے گا بشر گناہ کاارتکاب کرنے والا پردہ پوشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سچی توبہ کرے۔ یہ روایت اور سابقہ روایت متعلقہ باب سے تعلق نہیں رکھتیں کیو نکہ ان میں جہاد کا کوئی ذکر نہیں‘البتہ اصل باب‘یعنی بیعت سے مسائل سے تعلق ہے۔الا یہ کہ کہا جائے کہ’’اچھے اور نیکی کے کام‘‘میں جہاد بھی داخل ہے،’’عورتوں نے بیعت کی‘‘جب کوئی عورت مکہ سے ہجرت کرکے آپ کے پاس پہنچتی اور مسلمان ہوتی تو آپ اس سے مندرجہ بالا الفاظ کے ساتھ بیعت لیتے تھے،سورہ ممتحنہ ‘‘آیت نمبر:۱۴ میں آپ کو ان الفاظ کے ساتھ عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا تھا مگر یادر ہے کہ رسول اﷲﷺ نے کسی عورت سے معروف بیعت(درست مبارک سے)نہیں لی بلکہ آپ عورتوں سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے۔ساری زندگی آپ کادست مبارک کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔’’کسی اچھے کام میں ‘‘یہ لفظ عرفاََ آگئے ہیں ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کسی برے کام کا حکم دیں۔’’مٹا دے گی‘‘معلوم ہوا کہ دنیا میں ملنے والی شرعی سزا گناہ کو مٹا دیتی ہے۔اﷲتعالیٰ اس کی پوچھ گچھ نہیں فرمائے گا۔ احناف کے نزدیک گناہ کی معافی کیک لیے توجہ بھی ضروری ہے۔سزا تو صرف آئندہ روکنے اور عبرت کے لیے ہے لیکن حدیث کے ظاہر الفاظ اس کے خلاف ہیں۔’’اﷲتعالیٰ کے سپرد ہے‘‘پردہ پوشی کے بعد اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے امید یہی ہے کہ معاف فرمادے گا بشر گناہ کاارتکاب کرنے والا پردہ پوشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سچی توبہ کرے۔