سنن النسائي - حدیث 4166

كِتَابُ الْبَيْعَةِ الْبَيْعَةُ عَلَى الْجِهَادِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: «تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَّى فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْكُمْ شَيْئًا فَعُوقِبَ بِهِ، فَهُوَ لَهُ كَفَّارَةٌ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ، وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ» خَالَفَهُ أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4166

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل جہاد کی بیعت حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے ارد گرد صحابہ کرام کی ایک جماعت تھی کہ آپن نے فرمایا:’’مجھ سے بیعت کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے‘چوری نہیں کرو گے زنا نہیں کرو گے‘اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے‘کسی پر اپنی طرف سے گھڑا کر جھوٹ وبہتان نہیں باندھو گے اور کسی نیکی کے کام میں میری نافرمانی نہیں کروگے‘پھر جوشخص اس عہد کو پورا کرے گا‘اس کا اجروثواب اﷲتعالیٰ کے ذمے ہے۔اور تم میں سے جس شخص نے ان میں کوئی کام کرلیا اور اس کو (دنیا میں )اس کی سز امل گئی تو وہ سزا اس کے گناہ کو مٹا دے گی۔اور جس شخص نے ان میں سے کوئی کام کیا‘پھر اﷲتعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا تو اس کامعاملہ اﷲتعالیٰ کے سپرد ہے‘چاہے معاف فرمائے‘چاہے سزادے۔‘‘احمد بن سعید نے(عبید اﷲ بن سعد کی)امخالفت کی ہے۔
تشریح : یہ حدیث مبارکہ جس بیعت پر دلالت کرتی ہے وہ بیعت اسلام ہے جو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص تھی‘اب کسی سے یہ بیعت لینا جائز نہیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کے بعد کسی سے یہ بیعت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص پر دنیا میں اس کے جرم کی حدک قائم ہوجائے(اسے اپنے جرم کی شرعی سزامل جائے)تو یہ سزااس مجرم کے لیے کفارہ بن جاتی ہے۔جمہور اہم علم کا بھی یہی قول ہے‘البتہ بعض اہل علم اقامت حد کے اعتبار سے مضبوط ہے۔یہ روایت امام نسائیؒ نے دوستادوں‘ یعنی عبید اﷲ سعد اور احمد بن سعید سے بیان کی ہے۔استاد احمد بن سعید نے اپنی روایت میں امام نسائی ؒکے دوسرے استاد عبید بن سعد کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ جب عبید اﷲ بن سعد یہ روایت بیان کرتے ہیں تو وہ ابن شہاب (امام زہری)اور حضرت عبادہ بن صامتؓ کے درمیان ابوادریس خولانی کا واسطہ ذکر کرتے ہیں اور جب احمد بن سعید یہ روایت بیان کرتے ہیں تو وہ ابو ادریس خولانی کا واسطہ ذکر نہیں کرتے بلکہ ابن شہابؒ حضرت عبادہ بن صامتؓ کاشاگرد بناتے ہیں‘حالانکہ امام زہری(ابن شہاب)نے حضرت عبادہؓ کو نہیں پایا۔اس طرح یہ روایت منقطع بھی ہے۔ یہ حدیث مبارکہ جس بیعت پر دلالت کرتی ہے وہ بیعت اسلام ہے جو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص تھی‘اب کسی سے یہ بیعت لینا جائز نہیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کے بعد کسی سے یہ بیعت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص پر دنیا میں اس کے جرم کی حدک قائم ہوجائے(اسے اپنے جرم کی شرعی سزامل جائے)تو یہ سزااس مجرم کے لیے کفارہ بن جاتی ہے۔جمہور اہم علم کا بھی یہی قول ہے‘البتہ بعض اہل علم اقامت حد کے اعتبار سے مضبوط ہے۔یہ روایت امام نسائیؒ نے دوستادوں‘ یعنی عبید اﷲ سعد اور احمد بن سعید سے بیان کی ہے۔استاد احمد بن سعید نے اپنی روایت میں امام نسائی ؒکے دوسرے استاد عبید بن سعد کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ جب عبید اﷲ بن سعد یہ روایت بیان کرتے ہیں تو وہ ابن شہاب (امام زہری)اور حضرت عبادہ بن صامتؓ کے درمیان ابوادریس خولانی کا واسطہ ذکر کرتے ہیں اور جب احمد بن سعید یہ روایت بیان کرتے ہیں تو وہ ابو ادریس خولانی کا واسطہ ذکر نہیں کرتے بلکہ ابن شہابؒ حضرت عبادہ بن صامتؓ کاشاگرد بناتے ہیں‘حالانکہ امام زہری(ابن شہاب)نے حضرت عبادہؓ کو نہیں پایا۔اس طرح یہ روایت منقطع بھی ہے۔