سنن النسائي - حدیث 4154

كِتَابُ الْبَيْعَةِ الْبَيْعَةُ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا الْإِمَامُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّسَائِيُّ مِنْ لَفْظِهِ قَالَ: أَنْبَأَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: «بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْيُسْرِ وَالْعُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُومَ بِالْحَقِّ حَيْثُ كُنَّا لَا نَخَافُ لَوْمَةَ لَائِمٍ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4154

کتاب: بیعت سے متعلق احکام و مسائل سمع و طاعت کی بیعت حضرت عبارد بن صامتؓ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اﷲﷺ کی بیعت کی کہ ہم ہر آسانی وتنگی اور خوشی و ناخوشی میں آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔اور ہم حاکم سے اس کی حکومت نہیں چھینیں گے۔اور ہم حق لپر قائم رہیں گے جہاں بھی ہوں۔اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
تشریح : ۱باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ سمع وطاعت پر امام کی بیعت مشروع ہے۔شرعی امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر ہر حالت میں واجب ہے۔حالت تنگی کی ہویا آسانی کی‘خوشی کی ہو یانا خوشی کی۔بات پسند ہویا نا پسند‘یعنی اختلاف احوال سے وجوب اطاعت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔بقدرا استطاعت ہر حال میں اطاعت کرنی پڑے گی الا یہ کہ کوئی شرعی عذرہو۔شرعی امیر جب تک خودا اطاعت الہٰی پر کار بندرہے گا‘اس وقت تک اسے معزول کیا جاسکتا ہے نہ اس کی اطاعت ہی سے دست کش ہوا سکتا ہے۔ہاں اگر کسی امیر ومام میں ظاہر کفر دیکھا جائے تو اس کی اطاعت وفرمانبرداری واجب نہیں رہے گی بلکہ اسے معزول کرنے کی اگر طاقت ہوتو اسے معزول بھی کیا جائے گایا کم از کم اس کی معزولی کی کوشش کی جائے گی۔حق پر قائم رہنا ‘نیز حق کا ظہار امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے طور پر کرنا‘ہر شخص کے لیے ہر جگہ ضروری ہے۔اس میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواکرنے کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں۔’’اسانی وتنگی امیر کے حکم طیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔’’نہیں چھینیں گے‘‘یعنی کسی ناراضی کی بناپر یا امیر کی کسی غلطی کی بناپر اس کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے الا یہ کہ اس سے صر یح کفر صادر ہوجائے تو پھر اس کی امارت شرعاََ ختم ہوجائے گی۔بغاوت نہ کرنے کا حکم ہر امیر کے بارے میں ہے ‘خواہ وہ منتخب ہو یا منتخب امیر کا نامزد کردہ۔’’نہیں ڈریں گے‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملامت اور اناراضی کے ڈرے سے حق بات کہنے سے نہیں رکیں گے ورنہ گناہ کے مسئلے میں تو لوگوں کی ملامت سے ڈرنا چاہیے تا کہ انسان گناہوں سے بچ سکے۔ ۱باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ سمع وطاعت پر امام کی بیعت مشروع ہے۔شرعی امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر ہر حالت میں واجب ہے۔حالت تنگی کی ہویا آسانی کی‘خوشی کی ہو یانا خوشی کی۔بات پسند ہویا نا پسند‘یعنی اختلاف احوال سے وجوب اطاعت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔بقدرا استطاعت ہر حال میں اطاعت کرنی پڑے گی الا یہ کہ کوئی شرعی عذرہو۔شرعی امیر جب تک خودا اطاعت الہٰی پر کار بندرہے گا‘اس وقت تک اسے معزول کیا جاسکتا ہے نہ اس کی اطاعت ہی سے دست کش ہوا سکتا ہے۔ہاں اگر کسی امیر ومام میں ظاہر کفر دیکھا جائے تو اس کی اطاعت وفرمانبرداری واجب نہیں رہے گی بلکہ اسے معزول کرنے کی اگر طاقت ہوتو اسے معزول بھی کیا جائے گایا کم از کم اس کی معزولی کی کوشش کی جائے گی۔حق پر قائم رہنا ‘نیز حق کا ظہار امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے طور پر کرنا‘ہر شخص کے لیے ہر جگہ ضروری ہے۔اس میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواکرنے کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں۔’’اسانی وتنگی امیر کے حکم طیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔’’نہیں چھینیں گے‘‘یعنی کسی ناراضی کی بناپر یا امیر کی کسی غلطی کی بناپر اس کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے الا یہ کہ اس سے صر یح کفر صادر ہوجائے تو پھر اس کی امارت شرعاََ ختم ہوجائے گی۔بغاوت نہ کرنے کا حکم ہر امیر کے بارے میں ہے ‘خواہ وہ منتخب ہو یا منتخب امیر کا نامزد کردہ۔’’نہیں ڈریں گے‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملامت اور اناراضی کے ڈرے سے حق بات کہنے سے نہیں رکیں گے ورنہ گناہ کے مسئلے میں تو لوگوں کی ملامت سے ڈرنا چاہیے تا کہ انسان گناہوں سے بچ سکے۔