كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْءِ اول كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْءِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ إِلَى عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ: اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، فَقَالَ النَّاسُ: افْصِلْ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَفْصِلُ بَيْنَهُمَا، قَدْ عَلِمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» قَالَ: فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مِنْهَا قُوتَ أَهْلِهِ، وَجَعَلَ سَائِرَهُ سَبِيلَهُ سَبِيلَ الْمَالِ، ثُمَّ وَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، ثُمَّ وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ فَصَنَعْتَ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ، ثُمَّ أَتَيَانِي فَسَأَلَانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ، فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا، ثُمَّ أَتَيَانِي يَقُولُ هَذَا: اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنَ ابْنِ أَخِي، وَيَقُولُ هَذَا: اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنَ امْرَأَتِي، وَإِنْ شَاءَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَإِنْ أَبَيَا كُفِيَا ذَلِكَ ، ثُمَّ قَالَ: {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ} [الأنفال: 41] هَذَا لِهَؤُلَاءِ، {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ} [التوبة: 60] هَذِهِ لِهَؤُلَاءِ، {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ} [الحشر: 6]، قَالَ الزُّهْرِيُّ: «هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرًى عَرَبِيَّةً فَدْكُ كَذَا وَكَذَا»، فَ {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ، وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ} [الحشر: 7] وَ {لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ} [الحشر: 8] {وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا} الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ {وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ} فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِي هَذَا الْمَالِ حَقٌّ، أَوْ قَالَ: حَظٌّ، إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ، وَلَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَقُّهُ، أَوْ قَالَ: حَظُّهُ
کتاب: مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل
مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل
حضرت مالک بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت علی اور حضرت عباسؓ حضرت عمرؓ کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے۔حضرت عباس ؓ نے فرمایا:میرے اور اس (علیؓ)کے درمیان فیصلہ فرمایئے۔حاضرین نے بھی کہا:ان کے درمیان ضرور فیصلہ فرمایئے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا:لیکن مٰں ان کے درمیان فیصلہ نہیں کروں گا جبکہ انھیں علم ہے کہ رسول ہوتی۔جو کچھ ہم چھوڑ جائیں‘وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘رسول اﷲ ﷺ ان(متنازعہ) زمینوں کے سرپرست اور متولی تھے۔آپ ان سے اپنے اہل بیت کی خوراک لیتے اور باقی آمدن بیت المال میں رکھتے تھے۔پھر حضرت ابوبکرؓ آُ کے بعد مٰں ان کا سرپرست اور متولی بنا اور میں نے ان میںوہی کچھ کیا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے‘پھر یہ دونوں (حضرات علی وعباسؓ) میرے پاس آئے اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ یہ زمین ان کے سپرد کی جائے اس شرط پر کہ وہ اسی طریقے سے اس کا انتظام کریں گے جس طرح رسول اﷲﷺ کرتے تھے‘حضرت ابوبکرؓ کرتے تھے اور میں کرتا رہا ہوں۔میں نے اس شرط پر ان کو زمین دے دی اور ان سے عہد و پیمان لے لیا۔پھر یہ دوبارہ میرے پاس آئے۔یہ (حضرت عباسؓ) کہتے تھے کہ اتنی زمین میرے انتظام میں دے دیجیے جو مجھے میرے بھیتجے (رسول اﷲﷺ) سے بطور وراثت ملتی۔اور یہ (حضرت علیؓ) کہتے تھے کہ اتنی زمین میرے انتظام میں دے دیجیے جو میری بیوی (حضرت فاطمہؓ) کو وراثت میں ملتی۔اگر تو یہ چاہیں کہ میں ان کو اس شرط پر زمین سپرد کر دوں کہ وہ اس میں اس طرح انتظام کریں جس طرح رسول اﷲﷺ کرتے تھے‘حضرت ابوبکرؓ کرتے تھے اور میں کرتا رہا ہوں‘پھر تو میں اس شرط پر پر زمین ان کے سپرد کرتا ہوں‘ ورنہ میں انتظام سنبھال لیتا ہوں‘پھر آپ نے یہ آیت پڑھی’’تم جان لوکہ جوبھی تم غنیمت حاصل کرو اس پانچواں حصہ ا ﷲ تعالیٰ ‘رسول اﷲﷺ رشتے داروں (ایل بیت)‘یتیموں‘مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔‘‘خمس تو ان کے لیے ہوگیا۔ فقراء ‘مساکین‘صدقات جمع کرنے والے ملازمین‘مئولفئہ قلوب‘غلاموں‘مقروضوں اور مجاہدین کے لیے ہیں‘‘یہ (صدقات)ان کے لیے ہوگئے۔’’اور جو مال غنیمت اﷲتعالیٰ نے اپنے رسول کریم ﷺ کو ان سے (بنونضیر) سے عطا فرمایا ہے‘ اس کے لیے تم نے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔‘‘حضرت زہری بیان کرتے ہیں کہ یہ زمینین خالص رسول اﷲ ﷺ کے لیے تھیں۔اسی طرح کچھ عربی بستیاں جیسے فدک وغیرہ بھی آپ کے لیے خاص تھیں۔’’جو کچھ اﷲتعالیٰ نے اپنے رسول کریم (ﷺ)کو ان بستیوں سے دیا ہے‘وہ اﷲتعالیٰ‘اس کے رسول(ﷺ) اہل بیت یتیموں ‘مسکینوں اور مسافروں کے لیے ‘‘نیز’’یہ ان فقراء مہاجرین کے لیے ہے جن کو ان کے گھر بار سے نکال دیا گیا اور ان انصار کے لیے جودار الاسلام(مدینہ منورہ)کے رہنے والے ہیں اور مہاجرین کی آمد سے قبل ہی مسلمان ہوچکے تھے اور ان لوگوں کے لیے بھی جو ان کے بعد آئے(یا آئیں گے)‘‘۔یہ آیت تمام مسلمانوں شامل ہے۔کسی مسلمان کو بھی باہر نہیں رہنے دیا۔سب کا اس مام میں حق ہے‘لبتہ وہ غلام جو تمھاری ملکیت میں ہیں(ان کا کرئی حق نہیں)۔اور اگر زندہ رہا تو ان شاء اﷲ ہر مسلمان کو اس کا حق لازمامل کے رہے گا۔
تشریح :
حضرت عباس اور حضرت علیؓ حضرت عمرؓ سے ان زمینوں کی ملکیت نہیں مانگتے تھے بلکہ ان کا انتظام ہی ما نگتے تھے لیکن چونکہ دونوں کا آپس میں اتفاق نہیں رہتا تھا‘مزاج مختلف تھے‘ اس لیے عام لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔چونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ آپ ہمیں ان کا انتظام تقسیم کرنے سے یہ تصور پیدا ہوگا(خصوصََا حصہ وراثت کے مطابق تقسیم کرنے سے)کہ شایدان کی ملکیت ہے جبکہ یہ تصور صحیح نہیں الہٰذا میں تقسیم نہیں کرتا۔دونوں مل کر انتظام کریں۔اگر وہ اس عاجز ہیں تومیرے سپرد کردیں۔میں خودانتظام کرتا رہوں گا۔صحیح بخاری میں اس کئی تفصیل صراحت سے ہے۔’’بطوروراثت ملتی‘‘یعنی اگر وراثت جاری ہوتی اور حصے تقسیم ہوتے۔یہ مطلب نہیں کہ اب ہمیں کہ اب ہمیں بطور وراثت تقسیم کردیں۔پہلے گزرچکا ہے کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک خمس خیبر‘بنو نضیر کی زمینیں‘فدک اور صدقتہ النبی ﷺ وغیرہ(جنھیں اہل بیت رسول اﷺ کی ذاتی جائیداد سمجتے تھے اور بطور وراثت اپنا حق سمجھتے تھے)درصل بیت المال کی ملکیت تھے اور اس میں رسول اﷲﷺ اہل بیت اور مہاجرین وانصار بلکہ تمام(موجودہ آئندہ)مسلمانوں کو حق سمجھتے تھے‘یعنی جو بھی ضرورت مند اور متحاج ہو ‘اسے دے دیا جائے گا‘خواہ وہ اہل بیت سے ہو یادیگر مسلمانوں سے۔اس بات کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے قرآن مجید کے مختلف مقامات سے یہ آیات واجزاء پڑھے جن سے ان کا مدعی ثابت ہوتا ہے۔یقیناََ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کی رائے ان لوگوں سے زیاسہ معتبر ہے جنھوں نے خمس میں باقدعدہ حصے دار بنا دیے ہیں کہ ان کے حصے سے سرموکمی بیشی نہیں ہوسکتی بلکہ تقسیم میں بھی برابری فرض کردی ہے جیسا کہ امام نسائی ؒ کے خیالات اوپر گزرے ہیں۔حضرت عمرؓ خلیفہ ئراشد ہیں۔تجربہ کار حکمران ہیں۔مالی معاملات کی نزاکتوں سے خوب واقف ہیں‘نیز شریعت سے بھی کما حقہ واقف ہیں۔مجہتد صحابہ میں داخل ہیں بلکہ ان کے سرخیل ہیں۔رسول ﷲﷺ نے خصوصََاان کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ان کی باعقل اور اصول کے بھی بہت موافق ہے۔
حضرت عباس اور حضرت علیؓ حضرت عمرؓ سے ان زمینوں کی ملکیت نہیں مانگتے تھے بلکہ ان کا انتظام ہی ما نگتے تھے لیکن چونکہ دونوں کا آپس میں اتفاق نہیں رہتا تھا‘مزاج مختلف تھے‘ اس لیے عام لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔چونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ آپ ہمیں ان کا انتظام تقسیم کرنے سے یہ تصور پیدا ہوگا(خصوصََا حصہ وراثت کے مطابق تقسیم کرنے سے)کہ شایدان کی ملکیت ہے جبکہ یہ تصور صحیح نہیں الہٰذا میں تقسیم نہیں کرتا۔دونوں مل کر انتظام کریں۔اگر وہ اس عاجز ہیں تومیرے سپرد کردیں۔میں خودانتظام کرتا رہوں گا۔صحیح بخاری میں اس کئی تفصیل صراحت سے ہے۔’’بطوروراثت ملتی‘‘یعنی اگر وراثت جاری ہوتی اور حصے تقسیم ہوتے۔یہ مطلب نہیں کہ اب ہمیں کہ اب ہمیں بطور وراثت تقسیم کردیں۔پہلے گزرچکا ہے کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک خمس خیبر‘بنو نضیر کی زمینیں‘فدک اور صدقتہ النبی ﷺ وغیرہ(جنھیں اہل بیت رسول اﷺ کی ذاتی جائیداد سمجتے تھے اور بطور وراثت اپنا حق سمجھتے تھے)درصل بیت المال کی ملکیت تھے اور اس میں رسول اﷲﷺ اہل بیت اور مہاجرین وانصار بلکہ تمام(موجودہ آئندہ)مسلمانوں کو حق سمجھتے تھے‘یعنی جو بھی ضرورت مند اور متحاج ہو ‘اسے دے دیا جائے گا‘خواہ وہ اہل بیت سے ہو یادیگر مسلمانوں سے۔اس بات کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے قرآن مجید کے مختلف مقامات سے یہ آیات واجزاء پڑھے جن سے ان کا مدعی ثابت ہوتا ہے۔یقیناََ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کی رائے ان لوگوں سے زیاسہ معتبر ہے جنھوں نے خمس میں باقدعدہ حصے دار بنا دیے ہیں کہ ان کے حصے سے سرموکمی بیشی نہیں ہوسکتی بلکہ تقسیم میں بھی برابری فرض کردی ہے جیسا کہ امام نسائی ؒ کے خیالات اوپر گزرے ہیں۔حضرت عمرؓ خلیفہ ئراشد ہیں۔تجربہ کار حکمران ہیں۔مالی معاملات کی نزاکتوں سے خوب واقف ہیں‘نیز شریعت سے بھی کما حقہ واقف ہیں۔مجہتد صحابہ میں داخل ہیں بلکہ ان کے سرخیل ہیں۔رسول ﷲﷺ نے خصوصََاان کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ان کی باعقل اور اصول کے بھی بہت موافق ہے۔