كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْءِ اول كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْءِ ضعيف الإسناد مرسل أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: أَنْبَأَنَا مَحْبُوبٌ قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: الْخُمُسُ الَّذِي لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَرَابَتِهِ، لَا يَأْكُلُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ شَيْئًا، «فَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِذِي قَرَابَتِهِ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِلْيَتَامَى مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْمَسَاكِينِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِابْنِ السَّبِيلِ مِثْلُ ذَلِكَ» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قَالَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {لِلَّهِ} [الأنفال: 41] ابْتِدَاءُ كَلَامٍ لِأَنَّ الْأَشْيَاءَ كُلَّهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَعَلَّهُ إِنَّمَا اسْتَفْتَحَ الْكَلَامَ فِي الْفَيْءِ وَالْخُمُسِ بِذِكْرِ نَفْسِهِ لِأَنَّهَا أَشْرَفُ الْكَسْبِ، وَلَمْ يَنْسِبِ الصَّدَقَةَ إِلَى نَفْسِهِ عَزَّ وَجَلَّ لِأَنَّهَا أَوْسَاخُ النَّاسِ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَقَدْ قِيلَ يُؤْخَذُ مِنَ الْغَنِيمَةِ شَيْءٌ فَيُجْعَلُ فِي الْكَعْبَةِ وَهُوَ السَّهْمُ الَّذِي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَسَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْإِمَامِ يَشْتَرِي الْكُرَاعَ مِنْهُ وَالسِّلَاحَ، وَيُعْطِي مِنْهُ مَنْ رَأَى مِمَّنْ رَأَى فِيهِ غَنَاءً وَمَنْفَعَةً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، وَمِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَالْعِلْمِ وَالْفِقْهِ وَالْقُرْآنِ، وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَى وَهُمْ بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ بَيْنَهُمُ الْغَنِيُّ مِنْهُمْ وَالْفَقِيرُ، وَقَدْ قِيلَ إِنَّهُ لِلْفَقِيرِ مِنْهُمْ دُونَ الْغَنِيِّ كَالْيَتَامَى وَابْنِ السَّبِيلِ وَهُوَ أَشْبَهُ الْقَوْلَيْنِ بِالصَّوَابِ عِنْدِي وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالذَّكَرُ وَالْأُنْثَى سَوَاءٌ، لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ ذَلِكَ لَهُمْ، وَقَسَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ، وَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَلَا خِلَافَ نَعْلَمُهُ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ فِي رَجُلٍ لَوْ أَوْصَى بِثُلُثِهِ لِبَنِي فُلَانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ وَأَنَّ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى فِيهِ سَوَاءٌ إِذَا كَانُوا يُحْصَوْنَ، فَهَكَذَا كُلُّ شَيْءٍ صُيِّرَ لِبَنِي فُلَانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ إِلَّا أَنْ يُبَيِّنَ ذَلِكَ الْآمِرُ بِهِ وَاللَّهُ وَلِيُّ التَّوْفِيقِ، وَسَهْمٌ لِلْيَتَامَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لِلْمَسَاكِينِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لِابْنِ السَّبِيلِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا يُعْطَى أَحَدٌ مِنْهُمْ سَهْمُ مِسْكِينٍ وَسَهْمُ ابْنِ السَّبِيلِ، وَقِيلَ لَهُ: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، وَالْأَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ يَقْسِمُهَا الْإِمَامُ بَيْنَ مَنْ حَضَرَ الْقِتَالَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ الْبَالِغِينَ
کتاب: مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل
مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل
حضرت مجاہد بیان کرتے ہیںکہ وہ خمس جو اﷲ تعالیٰ کے لیے اور ان کے رسول کے لیے تھا‘وہ بنیااکرمﷺ اور آپ کے رشتے داروں کے لیے تھا کیونکہ وہ صدقہ نہیں لیتے تھے لہٰذا خمس کا پانچواں حصہ نبی اکرمﷺ کے لیے تھا۔اور خمس کا ایک اور پانچواں لیے بھی اسی قدر(پانچواں حصہ)تھا۔مساکین کے لیے بھی (پانچواں حصہ)تھا۔اور مسافرقوں کے لیے بھی پانچواں حصہ تھا۔
ثابو عبدالرحمن(امام نسائی)بیان کرتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا:’’تم جان لوکہ جو بھی تم غنیمت حاصل کرو‘اس کا پانچواں حصہ اﷲتعالیٰ اس کے رسولﷺ‘آپ کے رشتے داروں‘ یتیموں‘مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔‘‘اﷲتعالیٰ کا فرمانا{ﷲ} یہ تو آغاز کلام (تبرک)کے لیے ہے۔کیونکہ سب چیزیں اﷲتعالیٰ ہی کی ہیں۔ممکن ہے اﷲتعالیٰ نے غنیمت اور خمس کے مسئلے میں اپناذ کرپہلے اس لیے فرمایا ہو کہ یہ انتہائی عمدہ کمائی ہے۔اﷲتعالیٰ مال غنیمت اور مال فے کی تقسیم کے مسائل نے صدقے کی نسبت اپنی طرف نہیں فرمائی کیونکہ یہ لاگوں کامیل کچیل ہے۔یہ بھی کہاگیا ہے کہ غنیمت کے سے کچھ مال لے کر بیت اﷲ پر صرف کیا جائے گا اور یہ اﷲتعالیٰ والا حصہ ہے۔ملے گا۔وہ اس گھوڑے اور اسلحہ وغیرہ خریدے گا اور جن کو وہ مناسب سمجھے‘ان کو اس میں سے عطیات دے گا‘مثلاََ:جن لوگوں نے مسلمانوں کے لیے کوئی کارنامے سرانجام دیے ہوں اور جن سے مسلمانوں کا فائدہ ہو۔محد ثین‘فقہاء حفاظ اور دیگر اہل علم وغیرہ(بھی اس میں شامل ہیں)۔’’قرابت داری‘‘کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم ہوگا‘خواہ وہ مالدار ہوں یا فقیر۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں صرف فقراء کو ملے گا‘اغنیاء کو ملتا ہے۔اور میرے نزدیل یہ قول زیادہ درست ہے۔واﷲ اعلم۔چھوٹے بڑے‘مرد اور عورت سب اس میں برابر ہوں گے کیونکہ اﷲتعالیٰ نے نے یہ حصہ ان کے لیے مقرر فرمادیا ہے اور رسول اﷲﷺ نے ان میں تقسیم فرمایا۔کسی حدیث میں یہ ذکر نہیںکہ آپ میں کسی کو دوسرے سے زیادہ دیا ہو۔(اس کی دلیل یہ ہے کہ)اگر کوئی شخص کسی خاندان کے لیے اپنی متروکہ جائیدادکے تیسرے حصے کی وصیت کرجائے تو علماء مٰں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ ان کے درمیان برابر تقسیم ہو گا۔مذکر مئونث گنتی کے وقت ایک سے ہوں گے(یعنی کم وبیش نہیں دیا جائے گا)۔اسی طرح جوبھی چیز کسی
ماغنیمت اور مال فے کی تقسیم کے مسائل قبیلے کو دی جائے ‘وہ ان میں برابر تقسیم ہوتی ہے الا یہ کہ ہے۔اور یتیموں‘مسکینوں اور مسافروں کے حصے ان میں سے کسی کو دو حصے نہیں دیے جائیں گے‘مثلاََ:مسین کا بھی مسافرکابھی (بلکہ ایک حصہ دیاجائے گا)اسے جائے گا۔ان میں سے جونسا چاہو ہولے لو۔اور باقی چار حصے (یعنی خمس کے علاوہ غنیمت )امام وقت(حاکم اعلیٰ یا اس کا نمائندہ)کنگ میں حاضر ہونے والے بالغ مسلمانوں میں تقسیم کردے گا۔
تشریح :
غنیمت اور خمس کے بارے میں تفصیلی بحث سابقہ حدیث میں ہوچکی ہے۔ملا حظہ فرمائیں۔باقی رہا امام صاحب کا فرمانا کہ خمس میں فلاں فلاں کے حصے مقرر ہیں اور برابر ہیں۔یہ فرمایا درست نہیں بلکہ خمس کا اور خمس کے مستحقین کا تعین ہے مقدار تعین نہیں۔جس مصرف میں ضرورت ہو‘خرچ کرے اور جس قدر ضرورت ہو‘خرچ کرے۔یہ نہیں کہ فقرا ء مساکین اور قرابت داروں کو عین برابر حصے دے بلکہ ان کو ان کی حاجت کے مطابق ملے گا‘یعنی اﷲتعالیٰ نے خمس وبیش۔یہ کہیں منقول نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے رشتے داروں یا دوسرے مستحقین میں عین برابر مال تقسیم کیا ہو بلکہ غزوہ حین کے خمس سے آپ نے بعض لوگوں کو سوسواونٹ دیے تھے اور بعض کو کچھ بھی نہیں دیا تھا‘نیز یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی علاقے میں اہل بیت ہی نہ ہوں۔تو پھر ان کا حصہ کن کو دیا جائے گا؟اصل یہی ہے کہ مستحقین متعین ہیں لیکن حصہ متعین نہیں جوبھی مستحق پایا جائے گا اس کا حاجت کے مطابق اسے دیا جائے گا۔
غنیمت اور خمس کے بارے میں تفصیلی بحث سابقہ حدیث میں ہوچکی ہے۔ملا حظہ فرمائیں۔باقی رہا امام صاحب کا فرمانا کہ خمس میں فلاں فلاں کے حصے مقرر ہیں اور برابر ہیں۔یہ فرمایا درست نہیں بلکہ خمس کا اور خمس کے مستحقین کا تعین ہے مقدار تعین نہیں۔جس مصرف میں ضرورت ہو‘خرچ کرے اور جس قدر ضرورت ہو‘خرچ کرے۔یہ نہیں کہ فقرا ء مساکین اور قرابت داروں کو عین برابر حصے دے بلکہ ان کو ان کی حاجت کے مطابق ملے گا‘یعنی اﷲتعالیٰ نے خمس وبیش۔یہ کہیں منقول نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے رشتے داروں یا دوسرے مستحقین میں عین برابر مال تقسیم کیا ہو بلکہ غزوہ حین کے خمس سے آپ نے بعض لوگوں کو سوسواونٹ دیے تھے اور بعض کو کچھ بھی نہیں دیا تھا‘نیز یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی علاقے میں اہل بیت ہی نہ ہوں۔تو پھر ان کا حصہ کن کو دیا جائے گا؟اصل یہی ہے کہ مستحقین متعین ہیں لیکن حصہ متعین نہیں جوبھی مستحق پایا جائے گا اس کا حاجت کے مطابق اسے دیا جائے گا۔