سنن النسائي - حدیث 4145

كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْءِ اول كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْءِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: «كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَ» يُنْفِقُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْهَا قُوتَ سَنَةٍ، وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4145

کتاب: مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر کا مال ان مالوں میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو جنگ کے بغیر عطا فرمایا تھا، مسملانوں نے اس کے حصول کے لیے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیںڈ دوڑائے تھے (لڑائی کے بغیر ہی حاصل ہوا)۔ آپ اس میں سے اپنے لیے (اور اپنے گھر والوں کے لیے) ایک سال کی خوراک رکھ لیتے تھے اور باقی مال کو جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے گھوڑے اور اسلحہ خریدنے میں خرچ فرما دیتے تھے۔
تشریح : (۱) بنو نضیر ایک یہودی قبیلہ تھا جس کو ان کی بدعہدی کی سزا میں مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنا سامان وغیرہ تو ساتھ لے گئے تھے، البتہ ان کی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی تھیں لیکن وہ بیت المال کی ملکیت تھیں۔ رسول اللہﷺ کے ذاتی اور گھریلو اخراجات چونکہ بیت المال کے ذمے تھے، اس لیے آپ اپنے اہل بیت کی سالانہ خوراک اس میں سے رکھ لیتے تھے اور باقی مال مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ فرماتے تھے۔ (۲) جائز اسباب کا حصول توکل کے خلاف نہیں جیسا کہ رسول اللہﷺ جنگی اسلحہ اور ہتھیار وغیرہ خریدا کرتے تھے، نیز اسی طرح اپنے لیے اور اہل و عیال کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر رکھنا بھی توکل علی اللہ کے منافی نہیں۔ (۱) بنو نضیر ایک یہودی قبیلہ تھا جس کو ان کی بدعہدی کی سزا میں مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنا سامان وغیرہ تو ساتھ لے گئے تھے، البتہ ان کی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی تھیں لیکن وہ بیت المال کی ملکیت تھیں۔ رسول اللہﷺ کے ذاتی اور گھریلو اخراجات چونکہ بیت المال کے ذمے تھے، اس لیے آپ اپنے اہل بیت کی سالانہ خوراک اس میں سے رکھ لیتے تھے اور باقی مال مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ فرماتے تھے۔ (۲) جائز اسباب کا حصول توکل کے خلاف نہیں جیسا کہ رسول اللہﷺ جنگی اسلحہ اور ہتھیار وغیرہ خریدا کرتے تھے، نیز اسی طرح اپنے لیے اور اہل و عیال کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر رکھنا بھی توکل علی اللہ کے منافی نہیں۔