سنن النسائي - حدیث 4141

كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْءِ اول كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْءِ صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ جَاءَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمَانِهِ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَيْنٍ، بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا، وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِهِمْ، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا أَرَى هَاشِمًا وَالْمُطَّلِبَ شَيْئًا وَاحِدًا» قَالَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: «وَلَمْ يَقْسِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ شَيْئًا، كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4141

کتاب: مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمارا مقصد آپ سے غزوۂ حنین کی غنیمت بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کرنے کے بارے میں بات چیت کرنا تھا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائیوں بن مطلب بن عبدمناف کو (خمس میں سے) حصہ دیا مگر ہمیں کچھ نہیں دیا جبکہ آپ سے ہماری ان کی رشتے داری ایک جیسی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمای: ’’میں تو بنو ہاشم اور بنو مطلب کو ایک ہی چیز سمجھتا ہوں۔‘‘ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: رسول اللہﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیا جیسے آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو حصہ دیا۔
تشریح : آپ کے جد امجد عبدمناف کے چار بیٹے تھے: ہاشم، مطلب، عبد شمس اور نوفل۔ رسول اللہﷺ ہاشم کی نسل سے تھے۔ مطلب، عبد شمس اور نوفل کی اولاد آپ کے چچا زاد تھے۔ غزوۂ حنین میں بہت زیادہ مال غنیمت حاصل ہوا۔ اس کے خمس کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی۔ آپ نے اس سے بڑے بڑے عطیات دئیے۔ اپنے رشتہ داروں میں سے آپ نے اپنے خاندان بنو ہاشم اور اپنے چچا زاد بنو مطلب کے لوگوں کو عطیات دئیے مگر بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ بھی آپ چچا زاد تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بنو عبد شمس میں سے تھے اور حضرت جبیر بن مطعم بنو نوفل میں سے تھے۔ وہ دونوں صورت حاصل کی وضاحت کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے او عرص کی کہ بنو ہاشم تو آپ کا خاندان ہے ان کو حصہ دینا بجا مگر بنو مطلب اور ہم آپ کے برابر کے رشتہ دار ہیں۔ بنو مطلب کو دینا اور ہمیں نہ دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی ہیں۔ چونکہ مکہ مکرمہ میں جب رسول اللہﷺ ابتلاء کا شکار تھے تو بنو ہاشم کے ساتھ ساتھ بنو مطلب نے بھی آپ کی بھرپور مدد کی تھی لیکن بنو عبد شمس اور بنو نوفل مجموعی طور پر آپ سے لاتعلق رہے اور آپ کا ساتھ نہ دیا، اس لیے آپ نے عطیات دیتے وقت بنو مطلب کو اپنے ساتھ رکھا اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو الگ رکھا۔ اور آپ اس سلسلے میں حق بجانب تھے۔ اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے سے امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رشتے داروں کو خمس میں سے دیا۔ معلوم ہوا آپ کے رشتہ داروں کا خمس میں حصہ ہے لیکن حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اب بھی اہل بیت کا یہ حق قائم ہے اور کیا پورا خمس ان کا ہے؟ بحث گزر چکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث: ۴۱۳۸) آپ کے جد امجد عبدمناف کے چار بیٹے تھے: ہاشم، مطلب، عبد شمس اور نوفل۔ رسول اللہﷺ ہاشم کی نسل سے تھے۔ مطلب، عبد شمس اور نوفل کی اولاد آپ کے چچا زاد تھے۔ غزوۂ حنین میں بہت زیادہ مال غنیمت حاصل ہوا۔ اس کے خمس کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی۔ آپ نے اس سے بڑے بڑے عطیات دئیے۔ اپنے رشتہ داروں میں سے آپ نے اپنے خاندان بنو ہاشم اور اپنے چچا زاد بنو مطلب کے لوگوں کو عطیات دئیے مگر بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ بھی آپ چچا زاد تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بنو عبد شمس میں سے تھے اور حضرت جبیر بن مطعم بنو نوفل میں سے تھے۔ وہ دونوں صورت حاصل کی وضاحت کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے او عرص کی کہ بنو ہاشم تو آپ کا خاندان ہے ان کو حصہ دینا بجا مگر بنو مطلب اور ہم آپ کے برابر کے رشتہ دار ہیں۔ بنو مطلب کو دینا اور ہمیں نہ دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی ہیں۔ چونکہ مکہ مکرمہ میں جب رسول اللہﷺ ابتلاء کا شکار تھے تو بنو ہاشم کے ساتھ ساتھ بنو مطلب نے بھی آپ کی بھرپور مدد کی تھی لیکن بنو عبد شمس اور بنو نوفل مجموعی طور پر آپ سے لاتعلق رہے اور آپ کا ساتھ نہ دیا، اس لیے آپ نے عطیات دیتے وقت بنو مطلب کو اپنے ساتھ رکھا اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو الگ رکھا۔ اور آپ اس سلسلے میں حق بجانب تھے۔ اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے سے امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رشتے داروں کو خمس میں سے دیا۔ معلوم ہوا آپ کے رشتہ داروں کا خمس میں حصہ ہے لیکن حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اب بھی اہل بیت کا یہ حق قائم ہے اور کیا پورا خمس ان کا ہے؟ بحث گزر چکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث: ۴۱۳۸)