سنن النسائي - حدیث 4131

كِتَابُ المُحَارَبَة تَحْرِيمُ الْقَتْلِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، لَا يُؤْخَذُ الرَّجُلُ بِجِنَايَةِ أَبِيهِ، وَلَا جِنَايَةِ أَخِيهِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: «هَذَا خَطَأٌ، وَالصَّوَابُ مُرْسَلٌ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4131

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مسلمان کا قتل حرام ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جائو۔ کسی شخص کو اس کے باپ یا بھائی کے جرم میں نہ پکڑا جائے گا۔‘‘ امام ابو عبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ (مذکورہ روایت متصل بیان کرنا) غلط ہے۔ درست (یہ ہے کہ یہ) روایت مرسل ہے۔
تشریح : (۱) امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ مذکورہ روایت بعض رواۃ نے متصل بیان کی ہے اور بعض نے مرسل۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا متصل ہونا درست نہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہی ہے، اس لیے کہ متصل بیان کرنے والے راوی شریک اور ابوبکر بن عیاش ہیں اور وہ دونوں اعمش سے بیان کرتے ہیں۔ اعمش سے یہ روایت ابوبکر بن عیاش اور شریک کے علاوہ ابو معاویہ اور یعلیٰ نے بھی بیان کی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ شریک کثیر الخطاء (بہت غلطیاں کرنے والا) راوی ہے، دوسرے یہ کہ اس نے اور ابوبکر بن عیاش نے ابومعاویہ کی مخالفت کی ہے، حالانکہ ابو معاویہ، اعمش کے تمام شاگردوں میں سے اثبت راوی ہے، سوائے سفیان ثوری کے۔ ابو معاویہ نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ یعلیٰ بن عبید نے (اس کے مرسل بیان کرنے میں) ابو معاویہ کی متابعت بھی کی ہے۔ (۲) ’’کافر نہ بن جانا‘‘ یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ تم میرے بعد مرتد ہو کر کافر نہ بن جانا ورنہ تمہاری حالت وہی ہو جائے گی جو اسلام سے پہلے تھی کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جائو گے اور آپس میں قتل و قتال کا دور دورہ ہو گا۔ و اللہ اعلم۔ (۳) ’’نہ پکڑا جائے گا‘‘ یہ اسلام کا سنہری اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ خود ہے۔ کسی کے جرم میں اس کے بھائی، باپ یا بیٹے کو نہیں پکڑا جا سکتا الا یہ کہ ان کا اس جرم میں دخل ثابت ہو۔ جاہلیت میں یہ عام دستور تھا کہ قاتل کی بجائے اس کے کسی رشتے دار بلکہ اس کے قبیلے کے کسی بھی فرد کا قتل جائز سمجھا جاتا۔ ایک شخص کے جرم کی وجہ سے اس کا پورا قبیلہ مجرم بن جاتا تھا، اس لیے قتل و قتال عام تھا۔ اور ایک قتل پر بسا اوقات سینکڑوں قتل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے اس بے اصولی کی نفی اور مذمت فرمائی۔ (۱) امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ مذکورہ روایت بعض رواۃ نے متصل بیان کی ہے اور بعض نے مرسل۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا متصل ہونا درست نہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہی ہے، اس لیے کہ متصل بیان کرنے والے راوی شریک اور ابوبکر بن عیاش ہیں اور وہ دونوں اعمش سے بیان کرتے ہیں۔ اعمش سے یہ روایت ابوبکر بن عیاش اور شریک کے علاوہ ابو معاویہ اور یعلیٰ نے بھی بیان کی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ شریک کثیر الخطاء (بہت غلطیاں کرنے والا) راوی ہے، دوسرے یہ کہ اس نے اور ابوبکر بن عیاش نے ابومعاویہ کی مخالفت کی ہے، حالانکہ ابو معاویہ، اعمش کے تمام شاگردوں میں سے اثبت راوی ہے، سوائے سفیان ثوری کے۔ ابو معاویہ نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ یعلیٰ بن عبید نے (اس کے مرسل بیان کرنے میں) ابو معاویہ کی متابعت بھی کی ہے۔ (۲) ’’کافر نہ بن جانا‘‘ یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ تم میرے بعد مرتد ہو کر کافر نہ بن جانا ورنہ تمہاری حالت وہی ہو جائے گی جو اسلام سے پہلے تھی کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جائو گے اور آپس میں قتل و قتال کا دور دورہ ہو گا۔ و اللہ اعلم۔ (۳) ’’نہ پکڑا جائے گا‘‘ یہ اسلام کا سنہری اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ خود ہے۔ کسی کے جرم میں اس کے بھائی، باپ یا بیٹے کو نہیں پکڑا جا سکتا الا یہ کہ ان کا اس جرم میں دخل ثابت ہو۔ جاہلیت میں یہ عام دستور تھا کہ قاتل کی بجائے اس کے کسی رشتے دار بلکہ اس کے قبیلے کے کسی بھی فرد کا قتل جائز سمجھا جاتا۔ ایک شخص کے جرم کی وجہ سے اس کا پورا قبیلہ مجرم بن جاتا تھا، اس لیے قتل و قتال عام تھا۔ اور ایک قتل پر بسا اوقات سینکڑوں قتل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے اس بے اصولی کی نفی اور مذمت فرمائی۔