سنن النسائي - حدیث 4121

كِتَابُ المُحَارَبَة تَحْرِيمُ الْقَتْلِ صحيح أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْصُورٌ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيًّا يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَشَارَ الْمُسْلِمُ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ بِالسِّلَاحِ فَهُمَا عَلَى جُرُفِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا قَتَلَهُ خَرَّا جَمِيعًا فِيهَا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4121

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مسلمان کا قتل حرام ہے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کی طرف اسلحے کے ساتھ اشارہ کرے (ایک مسلمان دوسرے پر ہتھیار اٹھا لے اور دوسرا بھی اٹھا لے) تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں۔ اور جب ایک، دوسرے کو قتل کر دے تو دونوں اکٹھے جہنم میں گر پڑتے ہیں۔‘‘
تشریح : (۱) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ اور حرام ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا جہنم کی آگ کا مستحق ہو جاتا ہے۔ (۲) اس حدیث شریف سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی بھی (اچھے یا برے) کام کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے لیکن کسی وجہ سے اس پر عمل نہیں کر سکتا تو بھی اپنے عزم کے مطابق وہ شخص مواخذے یا اجر کا مستحق بن جاتا ہے۔ (۳) مرتکب کبیرہ، ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ وہ مومن اور مسلم ہی رہتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی انہیں مومن کہا گیا ہے: {وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا} اور مذکورہ احادیث میں رسول اللہﷺ نے بھی انہیں مسلمان کہا ہے۔ (۴) ’’گر پڑتے ہیں‘‘ یہ تب ہے جب دونوں کی نیت لڑائی کی ہو۔ دونوں ننگے مسلح ہوں۔ دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہوں، البتہ دائو ایک کا لگ گیا، تو قاتل و مقتول دونوں یکساں جہنمی ہوں گے کیونکہ دونوں کی نیت قتل کی تھی۔ اس حدیث سے مراد بھی یہی ہے کہ دونوں ایک دوسریح کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں، جس طرح کہ اگلی احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ و اللہ اعلم۔ (۱) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ اور حرام ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا جہنم کی آگ کا مستحق ہو جاتا ہے۔ (۲) اس حدیث شریف سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی بھی (اچھے یا برے) کام کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے لیکن کسی وجہ سے اس پر عمل نہیں کر سکتا تو بھی اپنے عزم کے مطابق وہ شخص مواخذے یا اجر کا مستحق بن جاتا ہے۔ (۳) مرتکب کبیرہ، ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ وہ مومن اور مسلم ہی رہتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی انہیں مومن کہا گیا ہے: {وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا} اور مذکورہ احادیث میں رسول اللہﷺ نے بھی انہیں مسلمان کہا ہے۔ (۴) ’’گر پڑتے ہیں‘‘ یہ تب ہے جب دونوں کی نیت لڑائی کی ہو۔ دونوں ننگے مسلح ہوں۔ دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہوں، البتہ دائو ایک کا لگ گیا، تو قاتل و مقتول دونوں یکساں جہنمی ہوں گے کیونکہ دونوں کی نیت قتل کی تھی۔ اس حدیث سے مراد بھی یہی ہے کہ دونوں ایک دوسریح کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں، جس طرح کہ اگلی احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ و اللہ اعلم۔