سنن النسائي - حدیث 4114

كِتَابُ المُحَارَبَة قِتَالُ الْمُسْلِمِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: قُلْتُ لِحَمَّادٍ: سَمِعْتَ مَنْصُورًا، وَسُلَيْمَانَ، وَزُبَيْدًا، يُحَدِّثُونَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ» مَنْ تَتَّهِمُ أَتَتَّهِمُ مَنْصُورًا أَتَتَّهِمُ زُبَيْدًا أَتَتَّهِمُ سُلَيْمَانَ قَالَ: لَا، وَلَكِنِّي أَتَّهِمُ أَبَا وَائِلٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4114

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مسلمان سے ( مسلح ) لڑائی لڑنا ( کفر کی بات ہے ) حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کو گالی گلوچ کرنا فسق اور اس سے لڑائی لڑنا کفر ہے۔‘‘ (امام شعبہ نے اپنے استاد حماد سے کہا:) تم کس پر تہمت لگاتے ہو؟ کیا تم منصور پر تہمت لگاتے ہو؟ کیا تم زبید پر تہمت لگاتے ہو؟ کیا تم سلیمان پر تہمت لگاتے ہو؟ حماد نے کہا: نہیں (میں ان میں سے کسی پر بھی تہمت نہیں لگاتا) لیکن میں (ان سب کے استاد) ابو وائل پر تہمت لگاتا ہوں۔ (کہ آیا اس نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث سنی ہے یا نہیں۔)
تشریح : مذکورہ بالا مسئلے کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ حماد، جس سے امام شعبہ نے منصور وغیرہ پر تہمت لگانے کی بابت پوچھا تھا، غالباً یہ حماد بن ابو سلیمان ہے۔ وہ امام شعبہ کا شیخ تھا اور مرجئہ میں سے تھا۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ مرجئہ فرقے کا عقیدہ ہے کہ اعمال، ایمان کا جز نہیں اور یہ بھی کہ جب کوئی شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے تو پھر ایمان کے ساتھ اس کے لیی کوئی گناہ نقصان دہ نہیں ہو سکتا اور یہ عقیدہ قطعاً باطل ہے۔ حماد کا ابو وائل کو تمہم کرنا غلط ہے۔ اس سے ان کا مقصد اپنے باطل عقیدے کا دفاع کرنا ہے۔ ابووائل سے مراد حضرت شقیق بن سلمہ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے معروف شاگرد اور مخضرم تابعی ہیں۔ مرجئہ کے ظہور کے بعد، حضرت ابووائل رحمہ اللہ سے جب ان (مرجئہ) کے متعلق پوچھا گیا تو سائل کے جواب میں انہوں نے رسول اللہﷺ کی یہی حدیث بیان فرمائی کہ [سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَ قِتَالُہٗ کُفْرٌ] (صحیح البخاری، الایمان، باب خوف المؤمن…، حدیث: ۴۸، و صحیح مسلم، الایمان، باب بیان قول النبیV…، حدیث: ۶۴) چونکہ اس متفق علیہ حدیث شریف سے مرجئہ کے مذکورہ باطل عقیدے کا صریح طور پر رد ہوتا ہے، اس لیے اس حدیث کے بنیادی راوی حضرت ابو وائل رحمہ اللہ ہی کو متہم کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ معلوم نہیں ابو وائل نے یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنی بھی ہے کہ نہیں؟ لیکن اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں فرمائے جماعت اصحاب الحدیث پر کہ جنہوں نے مبتدعین کے فرار کی تمام راہیں بند کر دیں، صحیح مسلم میں اس بات کی قطعی صراحت موجود ہے کہ ابو وائل رحمہ اللہ نے جو حدیث بیان فرمائی ہے، لا ریب! وہ رسول اللہﷺ ہی کا سچا فرمان ہے۔ اس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔ حضرت ابووائل سے بیان کرنے والے ان کے شاگرد زبید نے کہا کہ میں نے حضرت ابو وائل سے، یہ حدیث شریف سن کر پوچھا: کیا آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ سے یہ حدیث بیان فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! (میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا ہے کہ وہ یہ حدیث رسول اللہﷺ سے بیان فرماتے ہیں۔) دیکھئے: (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان قول النبیV: سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر، حدیث: (۱۱۶)-۶۴) مذکورہ بالا مسئلے کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ حماد، جس سے امام شعبہ نے منصور وغیرہ پر تہمت لگانے کی بابت پوچھا تھا، غالباً یہ حماد بن ابو سلیمان ہے۔ وہ امام شعبہ کا شیخ تھا اور مرجئہ میں سے تھا۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ مرجئہ فرقے کا عقیدہ ہے کہ اعمال، ایمان کا جز نہیں اور یہ بھی کہ جب کوئی شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے تو پھر ایمان کے ساتھ اس کے لیی کوئی گناہ نقصان دہ نہیں ہو سکتا اور یہ عقیدہ قطعاً باطل ہے۔ حماد کا ابو وائل کو تمہم کرنا غلط ہے۔ اس سے ان کا مقصد اپنے باطل عقیدے کا دفاع کرنا ہے۔ ابووائل سے مراد حضرت شقیق بن سلمہ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے معروف شاگرد اور مخضرم تابعی ہیں۔ مرجئہ کے ظہور کے بعد، حضرت ابووائل رحمہ اللہ سے جب ان (مرجئہ) کے متعلق پوچھا گیا تو سائل کے جواب میں انہوں نے رسول اللہﷺ کی یہی حدیث بیان فرمائی کہ [سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَ قِتَالُہٗ کُفْرٌ] (صحیح البخاری، الایمان، باب خوف المؤمن…، حدیث: ۴۸، و صحیح مسلم، الایمان، باب بیان قول النبیV…، حدیث: ۶۴) چونکہ اس متفق علیہ حدیث شریف سے مرجئہ کے مذکورہ باطل عقیدے کا صریح طور پر رد ہوتا ہے، اس لیے اس حدیث کے بنیادی راوی حضرت ابو وائل رحمہ اللہ ہی کو متہم کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ معلوم نہیں ابو وائل نے یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنی بھی ہے کہ نہیں؟ لیکن اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں فرمائے جماعت اصحاب الحدیث پر کہ جنہوں نے مبتدعین کے فرار کی تمام راہیں بند کر دیں، صحیح مسلم میں اس بات کی قطعی صراحت موجود ہے کہ ابو وائل رحمہ اللہ نے جو حدیث بیان فرمائی ہے، لا ریب! وہ رسول اللہﷺ ہی کا سچا فرمان ہے۔ اس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔ حضرت ابووائل سے بیان کرنے والے ان کے شاگرد زبید نے کہا کہ میں نے حضرت ابو وائل سے، یہ حدیث شریف سن کر پوچھا: کیا آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ سے یہ حدیث بیان فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! (میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا ہے کہ وہ یہ حدیث رسول اللہﷺ سے بیان فرماتے ہیں۔) دیکھئے: (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان قول النبیV: سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر، حدیث: (۱۱۶)-۶۴)