سنن النسائي - حدیث 4108

كِتَابُ المُحَارَبَة مَنْ شَهَرَ سَيْفَهُ ثُمَّ وَضَعَهُ فِي النَّاسِ ضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ الْبَصْرِيُّ الْحَرَّانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: كُنْتُ أَتَمَنَّى أَنْ أَلْقَى رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْأَلُهُ عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِيتُ أَبَا بَرْزَةَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنِي، وَرَأَيْتُهُ بِعَيْنِي، أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ فَقَسَمَهُ، فَأَعْطَى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ، وَمَنْ عَنْ شِمَالِهِ، وَلَمْ يُعْطِ مَنْ وَرَاءَهُ شَيْئًا، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِهِ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا عَدَلْتَ فِي الْقِسْمَةِ رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُومُ الشَّعْرِ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضَبًا شَدِيدًا وَقَالَ: «وَاللَّهِ لَا تَجِدُونَ بَعْدِي رَجُلًا هُوَ أَعْدَلُ مِنِّي»، ثُمَّ قَالَ: «يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ كَأَنَّ هَذَا مِنْهُمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ، لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، وَالْخَلِيقَةِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: شَرِيكُ بْنُ شِهَابٍ لَيْسَ بِذَلِكَ الْمَشْهُورِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4108

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان جو شخص تلوار ننگی کر کے لوگوں پر چلائے؟ حضرت شریک بن شہاب سے منقول ہے کہ میری خواہش تھی کہ میں رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو ملوں اور ان سے خارجیوں کے بارے میں پوچھوں، چنانچہ عید المبارک کے دن حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ میری ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ ان کے کچھ ساتھی بھی تھے۔ میں نے ان سے کہا: آپ نے رسول اللہﷺ کو خارجیوں کا ذکر فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے رسول اللہﷺ (کے فرمان) کو اپنے کانوں سے سنا اور میں نے (اس وقت) آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ کے پاس کچھ مال لایا گیا۔ آپ نے اسے تقسیم فرما دیا۔ اپنی دائیں بائیں طرف والے لوگوں کو دیا لیکن اپنے پیچھے والے لوگوں کو کچھ نہ دیا۔ آپ کے پیچھے سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے محمد! آپ نے تقسیم میں انصاف نہیں کیا۔ وہ آدمی کالے رنگ کا، منڈے ہوئے سر والا تھا۔ اس پر دو سفید کپڑے تھے۔ رسول اللہﷺ کو (یہ سن کر) شدید غصہ آیا اور آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! تم میرے بعد کوئی آدمی مجھ سے بڑھ کر انصاف کرنے والا نہیں پائو گے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اخیر زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے، اور یہ بھی مجھے انہی سے لگتا ہے، جو قرآن پڑھیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے شکار سے (صاف) نکل جاتا ہے۔ ان کے خصوصی علامت سر منڈوانا ہے۔ وہ لوگ ہمیشہ (بار بار) نکلتے رہیں گے حتی کہ ان میں سے آخری گروہ مسیح دجال کے ساتھ نکلے گا۔ جب تم ان سے ملو تو انہیں (بے دریغ) قتل کرو۔ وہ تمام مخلوقات میں سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ شریک بن شہاب (راویٔ حدیث) کوئی معروف آدمی نہیں۔ (بلکہ مجہول ہے کیونکہ ازرق بن قیس کے علاوہ دوسرے کسی شخص نے اس سے روایت بیان نہیں کی۔)
تشریح : (۱) ’’نہیں پائو گے‘‘ نبی سے بڑھ کر کوئی انصاف کنے والا نہیں ہو سکتا، چاہے وہ کتنا بھی انصاف پسند ہو۔ (۲) ’’سر منڈوانا‘‘ سر منڈوانا اگرچہ جائز ہے اور حج میں مستحب ہے مگر کسی جائز چیز کو لازم کر لینا اور اسے شرعی مسئلہ سمجھ لینا اور اسے خواہ مخواہ مستحب بنا لینا قطعاً ناجائز ہے۔ وہ لوگ بھی سر مونڈنے کو اپنا شعار بنا لیں گے اور اسے لازم سمجھیں گے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے اسے صرف بطور علامت بیان فرمایا ہے۔ اس کی مذمت نہیں فرمائی کیونکہ اگر کسی جائز چیز کو مستقلاً اختیار کر لیا جائے مگر اسے شرعی مسئلہ اور افضل خیال نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ بسا اوقات انسان اپنی سہولت کے لیے ایک جائز چیز کو مستقلاً اختیار کر لیتا ہے، جیسے کوئی شخص ہمیشہ قمیص پہنے یا بند جوتا پہنے۔ ظاہر ہے اس میں کوئی قباحت نہیں اور اگر وہ کام افضل اور مستحب ہے تو پھر اس پر دوام بدرجۂ اولیٰ مستحب ہے، جیسے اشراق کی دو رکعتیں وغیرہ۔ (۳) ’’آخری گروہ‘‘ گویا خوارج والی ذہنیت قیامت تک رہے گی۔ (۴) ’’مسیح دجال‘‘ یعنی جھوٹا اور دغا باز مسیح۔ جس طرح ہم اب کسی مدعی نبوت کو جھوٹا نبی کہیں۔ چونکہ وہ مسیح ہونے کا دعویٰ کرے گا بلکہ اس وقت کے یہودی اسے ’’مسیح‘‘ تسلیم کر کے اس کی پیروی کریں گے۔ اب بھی یہودی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔ (حالانکہ مسیح ﷺ تو کب کے آ چکے) اس لیے اسے مسیح دجال کہا گیا۔ دجال صفت کا صیغہ ہے، کسی کا نام یا لقب نہیں۔ اس کے معنی ہیں: انتہائی دغا باز، جھوٹا اور فراڈی۔ گویا ان الفاظ سے اس کا مسیح ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسے ’’جھوٹا نبی‘‘ کہنے سے کسی کی نبوت ثابت نہیں ہوتی۔ (۵) ’’بدترین لوگ‘‘ کیونکہ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ اور مسلمانوں کا قاتل بدترین جہنمی ہے۔ (۱) ’’نہیں پائو گے‘‘ نبی سے بڑھ کر کوئی انصاف کنے والا نہیں ہو سکتا، چاہے وہ کتنا بھی انصاف پسند ہو۔ (۲) ’’سر منڈوانا‘‘ سر منڈوانا اگرچہ جائز ہے اور حج میں مستحب ہے مگر کسی جائز چیز کو لازم کر لینا اور اسے شرعی مسئلہ سمجھ لینا اور اسے خواہ مخواہ مستحب بنا لینا قطعاً ناجائز ہے۔ وہ لوگ بھی سر مونڈنے کو اپنا شعار بنا لیں گے اور اسے لازم سمجھیں گے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے اسے صرف بطور علامت بیان فرمایا ہے۔ اس کی مذمت نہیں فرمائی کیونکہ اگر کسی جائز چیز کو مستقلاً اختیار کر لیا جائے مگر اسے شرعی مسئلہ اور افضل خیال نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ بسا اوقات انسان اپنی سہولت کے لیے ایک جائز چیز کو مستقلاً اختیار کر لیتا ہے، جیسے کوئی شخص ہمیشہ قمیص پہنے یا بند جوتا پہنے۔ ظاہر ہے اس میں کوئی قباحت نہیں اور اگر وہ کام افضل اور مستحب ہے تو پھر اس پر دوام بدرجۂ اولیٰ مستحب ہے، جیسے اشراق کی دو رکعتیں وغیرہ۔ (۳) ’’آخری گروہ‘‘ گویا خوارج والی ذہنیت قیامت تک رہے گی۔ (۴) ’’مسیح دجال‘‘ یعنی جھوٹا اور دغا باز مسیح۔ جس طرح ہم اب کسی مدعی نبوت کو جھوٹا نبی کہیں۔ چونکہ وہ مسیح ہونے کا دعویٰ کرے گا بلکہ اس وقت کے یہودی اسے ’’مسیح‘‘ تسلیم کر کے اس کی پیروی کریں گے۔ اب بھی یہودی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔ (حالانکہ مسیح ﷺ تو کب کے آ چکے) اس لیے اسے مسیح دجال کہا گیا۔ دجال صفت کا صیغہ ہے، کسی کا نام یا لقب نہیں۔ اس کے معنی ہیں: انتہائی دغا باز، جھوٹا اور فراڈی۔ گویا ان الفاظ سے اس کا مسیح ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسے ’’جھوٹا نبی‘‘ کہنے سے کسی کی نبوت ثابت نہیں ہوتی۔ (۵) ’’بدترین لوگ‘‘ کیونکہ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ اور مسلمانوں کا قاتل بدترین جہنمی ہے۔