ذِكْرُ الْفِطْرَةِ النَّهْيُ عَنْ الِاكْتِفَاءِ فِي الِاسْتِطَابَةِ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ لَهُ رَجُلٌ إِنَّ صَاحِبَكُمْ لَيُعَلِّمُكُمْ حَتَّى الْخِرَاءَةَ قَالَ أَجَلْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ أَوْ نَسْتَنْجِيَ بِأَيْمَانِنَا أَوْ نَكْتَفِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ
کتاب: امور فطرت کا بیان
صفائی میں تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفا کرنا منع ہے
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان سے کہا: تحقیق تمھارا نبی تو تمھیں ہر چیز سکھاتا ہے حتی کہ قضائے حاجت کرنا بھی۔ انھوں نے فرمایا: ہاں! آپ نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ ہم قضائے حاجت کے وقت قبلے کی طرف منہ کریں یا دائیں ہاتھ سے استنجا کریں یا تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفا کریں۔
تشریح :
(۱) یہ آدمی مشرک تھا اور اس نے یہ جملہ تحقیر و مذاق کے انداز میں کہا تھا جسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کمال حکمت سے سنجیدہ انداز میں پیش فرمایا۔ جزاء اللہ أحسن الجزاء۔ (۲) مذکورہ احادیث سے جہاں یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ گوبر اور لید سے صفائی کرنا اور پھر اس غرض کے لیے دائیں ہاتھ کا استعمال ممنوع ہے۔ وہاں یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم تین پتھروں یا ڈھیلوں سے استنجا کرنا ضروری ہے، اس سے کم پتھروں سے استنجا کرنے کی ممانعت ہے، اگرچہ بسا اوقات صفائی ایک یا دو پتھروں سے بھی ممکن ہو اور یقیناً اس تعداد کے حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے، نظافتِ مزید کی حکمت تو سمجھ میں آتی ہی ہے جبکہ حصول نظافت کی خاطر تین سے زائد ڈھیلوں کا استعمال، جب تین سے صفائی حاصل نہ ہو، حسب ضرورت مطلوب ہے۔ لیکن طاق عدد کو ملحوظ رکھا جائے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے: [ومن استجمر فلیوتر] ’’جو ڈھیلے استعمال کرے تو چاہیے کہ طاق استعمال کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۱۶۱)
(۱) یہ آدمی مشرک تھا اور اس نے یہ جملہ تحقیر و مذاق کے انداز میں کہا تھا جسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کمال حکمت سے سنجیدہ انداز میں پیش فرمایا۔ جزاء اللہ أحسن الجزاء۔ (۲) مذکورہ احادیث سے جہاں یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ گوبر اور لید سے صفائی کرنا اور پھر اس غرض کے لیے دائیں ہاتھ کا استعمال ممنوع ہے۔ وہاں یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم تین پتھروں یا ڈھیلوں سے استنجا کرنا ضروری ہے، اس سے کم پتھروں سے استنجا کرنے کی ممانعت ہے، اگرچہ بسا اوقات صفائی ایک یا دو پتھروں سے بھی ممکن ہو اور یقیناً اس تعداد کے حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے، نظافتِ مزید کی حکمت تو سمجھ میں آتی ہی ہے جبکہ حصول نظافت کی خاطر تین سے زائد ڈھیلوں کا استعمال، جب تین سے صفائی حاصل نہ ہو، حسب ضرورت مطلوب ہے۔ لیکن طاق عدد کو ملحوظ رکھا جائے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے: [ومن استجمر فلیوتر] ’’جو ڈھیلے استعمال کرے تو چاہیے کہ طاق استعمال کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۱۶۱)