سنن النسائي - حدیث 4093

كِتَابُ المُحَارَبَة مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أُرِيدَ مَالُهُ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ فَهُوَ شَهِيدٌ» هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ حَدِيثُ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4093

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیٔ اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کا مال ناحق چھیننے کی کوشش کی جائے اور وہ لڑتا ہوا مارا جائے تو وہ شہید ہو گا۔‘‘ (امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا:) یہ (روایت) غلط ہے۔ سعیر بن خمس کی (اس سے پہلی) روایت درست ہے۔
تشریح : امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد ہے کہ یہ روایت بواسطہ عبداللہ بن حسن، عکرمہ سے صحیح ہے جیسا کہ سعیر بن خمس نے بیان کیا ہے، نہ کہ بواسطۂ عبداللہ بن حسن عن ابراہیم بن محمد جیسا کہ سفیان ثوری نے بیان کیا ہے۔ لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کا سفیان کی حدیث کو خطا کہنا محل نظر ہے کیونکہ ثوری ثقہ اور حافظ ہیں اور پھر وہ منفرد بھی نہیں بلکہ عبدالعزیز بن مطلب نے ان کی متابعت کی ہے۔ اس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اور حسن کہا ہے۔ گویا اس روایت میں عبداللہ بن حسن کے دو استاد ہیں: عکرمہ اور ابراہیم بن محمد۔ اور روایت دونوں طریق سے صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائی: ۳۲/۷۳) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد ہے کہ یہ روایت بواسطہ عبداللہ بن حسن، عکرمہ سے صحیح ہے جیسا کہ سعیر بن خمس نے بیان کیا ہے، نہ کہ بواسطۂ عبداللہ بن حسن عن ابراہیم بن محمد جیسا کہ سفیان ثوری نے بیان کیا ہے۔ لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کا سفیان کی حدیث کو خطا کہنا محل نظر ہے کیونکہ ثوری ثقہ اور حافظ ہیں اور پھر وہ منفرد بھی نہیں بلکہ عبدالعزیز بن مطلب نے ان کی متابعت کی ہے۔ اس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اور حسن کہا ہے۔ گویا اس روایت میں عبداللہ بن حسن کے دو استاد ہیں: عکرمہ اور ابراہیم بن محمد۔ اور روایت دونوں طریق سے صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائی: ۳۲/۷۳)