سنن النسائي - حدیث 4085

كِتَابُ المُحَارَبَة سَحَرَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ ابْنِ حَيَّانَ يَعْنِي يَزِيدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: سَحَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَاشْتَكَى لِذَلِكَ أَيَّامًا، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَقَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ سَحَرَكَ، عَقَدَ لَكَ عُقَدًا فِي بِئْرِ كَذَا وَكَذَا، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَخْرَجُوهَا، فَجِيءَ بِهَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَمَا ذَكَرَ ذَلِكَ لِذَلِكَ الْيَهُودِيِّ، وَلَا رَآهُ فِي وَجْهِهِ قَطُّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4085

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان اہل کتاب کے جادوگروں کا بیان حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی شخص نے نبیﷺ پر جادو کر دیا۔ آپ اس کی وجہ سے کچھ دین بیمار سے رہے۔ پھر جبریل ﷺ آپ کے پاس آئے اور فرمایا: ایک یہودی نے آپ پر جادو کر دیا ہے۔ اس نے کچھ گرہیں دے کر فلاں کنویں میں رکھ چھوڑی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے کچھ صحابہ بھیجے۔ انہوں نے ان گرہوں کو نکالا اور ان کو آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اللہﷺ اس طرح اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کسی اونٹ کا گھٹنا کھول دیا جائے۔ پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے اس کا ذکر کیا اور نہ اس (یہودی) نے کبھی آپ کے چہرے پر اس کا کچھ اثر پایا۔
تشریح : (۱) یہ رویات مختصر ہے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تفصیل کے ساتھ مروی ہے۔ دیکھئے: (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب صفۃ إبلیس و جنودہ، حدیث: ۳۲۶۸) (۲) یہ جادو ایک مشہور یہودی جادوگر لبید بن اعصم ملعون نے یہودیوں کے پر زور اصرار پر تین دینار کے عوض کیا تھا۔ اور یہ ماہ محرم ۷ھ کی بات ہے۔ اس نے آپ کی کنگھی اور آپ کے بال ایک یہودی لڑکے کی معرفت حاصل کیے اور ان کو جادو کے لیے استعمال کیا۔ اس کا مقصد (خاکم بدہن) آپ کو ختم کرنا تھا مگر وہ ناکام رہا۔ (۳) ’’کچھ دن بیمار سے رہے‘‘ اس جادو کا اثر آپ پر غیر مرئی رہا، یعنی عام لوگوں کو محسوس نہ ہوتا تھا لیکن آپ پر اس کے اثرات یوں ظاہر ہوئے کہ آپ بعض امور میں متردد ہونے لگے، آیا میں نے یہ کام کیا ہے یا نہیں وغیرہ؟ حصول وحی یا ابلاغ شریعت میں قطعاً آپ پر یہ جادو اثر انداز نہ ہوا، جیسا کہ مختلف روایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے، نیز آپ ذرا پریشان سے رہنے لگے تھے۔ دراصل آپ کی روحانی قوت جادو کی قوتوں کا مقابلہ کرتی تھی۔ اور مقابلہ کی صورت میں مندرجہ بالا اثرات لازمی تھے۔ (۴) ’’کچھ صحابہ بھیجے‘‘ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ آپ خود بھی تشریف لے گئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے اپنے کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور پھر خود آپ بھی تشریف لے گئے۔ اس کنویں سے جادو والی چیزیں نکالی گئیں اور آپ نے معوذتین {قل اعوذ برب الفلق} اور {قل اعوذ برب الناس} پڑھ کر جادو کی گرہوں کو کھولا۔ گیارہ گرہیں تھیں اور ان دونوں سورتوں کی آیات بھی گیارہ ہیں۔ آپ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تھے ار گرہیں کھلتی جا رہی تھیں۔ گرہوں کا کھلنا تھا کہ آپ بالکل تندرست ہو گئے۔ (۵) ’’گھٹنا کھول دیا جائے‘‘ تو وہ بڑی چستی سے کھڑا ہو جاتا اور اِدھر اُدھر بھاگتا دوڑتا ہے۔ (۶) آپ نے اس یہودی یا دوسرے یہودیوں سے اس کا تذکرہ نہ فرمایا بلکہ عام لوگوں میں بھی مشہور نہ کیا گیا تاکہ یہودی یہ سمجھیں کہ ہمارے سخت ترین جادو کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ ناامید ہو کر آپ کا پیچھا چھوڑ دیں۔ اگر آپ اس بات کو اچھالتے تو ان کو پتا چل جاتا کہ آپ پر کچھ نہ کچھ اثر ہوا ہے، لہٰذا وہ مزید سرگرمی کے ساتھ اس سے بھی بڑا جادو کرنے کی کوشش کرتے۔ (۷) باب کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے جادو کرنے والے کو کوئی سزا نہیں دی۔ بعض لوگوں نے کہا ہے: یہ اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں تھا بلکہ یہودی تھا۔ اور حدود مسلمانوں کے لیے ہیں۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اگر جادوگر کے جادو کا کوئی ثبوت مل جائے اور اس نے کسی کا نقصان کیا ہو تو اسے سزا دی جائے گی، خواہ کافر، یعین یہودی ہو یا کوئی اور۔ (۸) جادو کو کتاب المحاربہ میں ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جادو کفر ہے۔ اگر کوئی مسلمان کرے گا تو وہ مرتد سمجھا جائے گا اور اس پر سزاائے ارتداد نافذ کی جائے گی، یعنی اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ غیر مسلم اگر جادو کرے اور اس سے کسی کو قتل کر دے تو اسے قصاصاً قتل کر دیا جائے گا۔ اور اگر اس نے کسی کا صرف نقصان کیا ہو تو اس سے وصولی کی جائے گی، نیز اسے قید وغیرہ بھی کیا جائے گا تاکہ معاشرہ اس کے مضر اثرات اور مفاسد سے محفوظ رہ سکے۔ (۹) بعض حضرات نے رسول اللہﷺ پر جادو والی روایت کو رد کیا ہے، حالانکہ یہ روایت صحیحین میں قطعاً ثابت ہے۔ کسی محدث یا فقیہ نے اس کی سند یا متن میں کوئی خرابی نہیں سمجھیں۔ نہ اسے عقل، قرآن یا شان رسولﷺ کے خلاف سمجھا ہے۔ بعض متکلمین اور متکبرین حدیث کو یہ خلجان ہوا کہ ’’یہ حدیث شان نبوت کے منافی ہے۔‘‘ حالانکہ طبیعت کا ڈھیلا پڑ جانا وغیرہ کسی لحاظ سے بھی شانِ نبوت کے خلاف نہیں۔ آپ کو بخار چڑھتا تھا، سر درد ہوتا تھا، بڑھاپا طاری ہوا۔ اگر یہ جسمانی عوارض شانِ نبوت کے منافی نہیں تو مذکورہ بالا اثرات کیوں منافی ہوں؟ بعض سمجھتے ہیں کہ اگر آپ پر جادو کا اثر مانا جائے تو گویا آپ پر کافروں کو غلبہ حاصل ہو گیا، حالانکہ کافروں کے ہاتھوں آپ زخمی ہوئے، زہر کھلایا گیا۔ اگر اس سے کفار کو غلبہ حاصل نہیں ہوا تو مندرجہ بالا اثرات سے کیسے غلبہ حاصل ہو گیا؟ غلبہ تو تب ہوتا اگر یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے۔ بعض حضرات نے آپ پر جادو کو آیت کریمہ {اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا} (بنی اسرائیل ۱۷:۷۴) کے خلاف خیال کیا ہے کیونکہ یہ کافروں کا دعویٰ تھا کہ آپ جادو زدہ ہیں۔ اور کفار کا آپ کو جادو زدہ کہنے سے مطلب یہ تھا کہ آپ جو دین پیش کر رہے ہیں، یہ کسی جادو کا اثر ہے جبکہ اس حدیث میں جس جادو کا ذکر ہے، وہ کسی کافر شخص نے کیا تھا اور اس نے آپ پر صرف جسمانی اثر کیا تھا جو کہ عام آدمی کو محسوس بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس سے نہ آپ کے دماغ پر کوئی اثر پڑا اور نہ کوئی تعلیمات متأثر ہوئیں۔ ایسے اثرات تو بیماری کی بنا پر بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر بیماری طاری ہو سکتی ہے تو ان اثرات میں کیا حرج ہے؟ بلکہ آپ پر جادو کا اثر ہونے سے یہ ثابت ہو گیا کہ آپ جادوگر نہیں کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا، لہٰذا کافروں کے اس الزام کی تردید ہو گئی کہ آپ جادوگر ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ جادو کا اثر کسی پر بھی ہو سکتا ہے، البتہ جادو کفر ہے او اگر کوئی خاص مصلحت نہ ہو تو جادو کرنے والا واجب القتل ہے۔ یہی اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے۔ و اللہ اعلم (۱) یہ رویات مختصر ہے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تفصیل کے ساتھ مروی ہے۔ دیکھئے: (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب صفۃ إبلیس و جنودہ، حدیث: ۳۲۶۸) (۲) یہ جادو ایک مشہور یہودی جادوگر لبید بن اعصم ملعون نے یہودیوں کے پر زور اصرار پر تین دینار کے عوض کیا تھا۔ اور یہ ماہ محرم ۷ھ کی بات ہے۔ اس نے آپ کی کنگھی اور آپ کے بال ایک یہودی لڑکے کی معرفت حاصل کیے اور ان کو جادو کے لیے استعمال کیا۔ اس کا مقصد (خاکم بدہن) آپ کو ختم کرنا تھا مگر وہ ناکام رہا۔ (۳) ’’کچھ دن بیمار سے رہے‘‘ اس جادو کا اثر آپ پر غیر مرئی رہا، یعنی عام لوگوں کو محسوس نہ ہوتا تھا لیکن آپ پر اس کے اثرات یوں ظاہر ہوئے کہ آپ بعض امور میں متردد ہونے لگے، آیا میں نے یہ کام کیا ہے یا نہیں وغیرہ؟ حصول وحی یا ابلاغ شریعت میں قطعاً آپ پر یہ جادو اثر انداز نہ ہوا، جیسا کہ مختلف روایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے، نیز آپ ذرا پریشان سے رہنے لگے تھے۔ دراصل آپ کی روحانی قوت جادو کی قوتوں کا مقابلہ کرتی تھی۔ اور مقابلہ کی صورت میں مندرجہ بالا اثرات لازمی تھے۔ (۴) ’’کچھ صحابہ بھیجے‘‘ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ آپ خود بھی تشریف لے گئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے اپنے کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور پھر خود آپ بھی تشریف لے گئے۔ اس کنویں سے جادو والی چیزیں نکالی گئیں اور آپ نے معوذتین {قل اعوذ برب الفلق} اور {قل اعوذ برب الناس} پڑھ کر جادو کی گرہوں کو کھولا۔ گیارہ گرہیں تھیں اور ان دونوں سورتوں کی آیات بھی گیارہ ہیں۔ آپ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تھے ار گرہیں کھلتی جا رہی تھیں۔ گرہوں کا کھلنا تھا کہ آپ بالکل تندرست ہو گئے۔ (۵) ’’گھٹنا کھول دیا جائے‘‘ تو وہ بڑی چستی سے کھڑا ہو جاتا اور اِدھر اُدھر بھاگتا دوڑتا ہے۔ (۶) آپ نے اس یہودی یا دوسرے یہودیوں سے اس کا تذکرہ نہ فرمایا بلکہ عام لوگوں میں بھی مشہور نہ کیا گیا تاکہ یہودی یہ سمجھیں کہ ہمارے سخت ترین جادو کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ ناامید ہو کر آپ کا پیچھا چھوڑ دیں۔ اگر آپ اس بات کو اچھالتے تو ان کو پتا چل جاتا کہ آپ پر کچھ نہ کچھ اثر ہوا ہے، لہٰذا وہ مزید سرگرمی کے ساتھ اس سے بھی بڑا جادو کرنے کی کوشش کرتے۔ (۷) باب کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے جادو کرنے والے کو کوئی سزا نہیں دی۔ بعض لوگوں نے کہا ہے: یہ اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں تھا بلکہ یہودی تھا۔ اور حدود مسلمانوں کے لیے ہیں۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اگر جادوگر کے جادو کا کوئی ثبوت مل جائے اور اس نے کسی کا نقصان کیا ہو تو اسے سزا دی جائے گی، خواہ کافر، یعین یہودی ہو یا کوئی اور۔ (۸) جادو کو کتاب المحاربہ میں ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جادو کفر ہے۔ اگر کوئی مسلمان کرے گا تو وہ مرتد سمجھا جائے گا اور اس پر سزاائے ارتداد نافذ کی جائے گی، یعنی اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ غیر مسلم اگر جادو کرے اور اس سے کسی کو قتل کر دے تو اسے قصاصاً قتل کر دیا جائے گا۔ اور اگر اس نے کسی کا صرف نقصان کیا ہو تو اس سے وصولی کی جائے گی، نیز اسے قید وغیرہ بھی کیا جائے گا تاکہ معاشرہ اس کے مضر اثرات اور مفاسد سے محفوظ رہ سکے۔ (۹) بعض حضرات نے رسول اللہﷺ پر جادو والی روایت کو رد کیا ہے، حالانکہ یہ روایت صحیحین میں قطعاً ثابت ہے۔ کسی محدث یا فقیہ نے اس کی سند یا متن میں کوئی خرابی نہیں سمجھیں۔ نہ اسے عقل، قرآن یا شان رسولﷺ کے خلاف سمجھا ہے۔ بعض متکلمین اور متکبرین حدیث کو یہ خلجان ہوا کہ ’’یہ حدیث شان نبوت کے منافی ہے۔‘‘ حالانکہ طبیعت کا ڈھیلا پڑ جانا وغیرہ کسی لحاظ سے بھی شانِ نبوت کے خلاف نہیں۔ آپ کو بخار چڑھتا تھا، سر درد ہوتا تھا، بڑھاپا طاری ہوا۔ اگر یہ جسمانی عوارض شانِ نبوت کے منافی نہیں تو مذکورہ بالا اثرات کیوں منافی ہوں؟ بعض سمجھتے ہیں کہ اگر آپ پر جادو کا اثر مانا جائے تو گویا آپ پر کافروں کو غلبہ حاصل ہو گیا، حالانکہ کافروں کے ہاتھوں آپ زخمی ہوئے، زہر کھلایا گیا۔ اگر اس سے کفار کو غلبہ حاصل نہیں ہوا تو مندرجہ بالا اثرات سے کیسے غلبہ حاصل ہو گیا؟ غلبہ تو تب ہوتا اگر یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے۔ بعض حضرات نے آپ پر جادو کو آیت کریمہ {اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا} (بنی اسرائیل ۱۷:۷۴) کے خلاف خیال کیا ہے کیونکہ یہ کافروں کا دعویٰ تھا کہ آپ جادو زدہ ہیں۔ اور کفار کا آپ کو جادو زدہ کہنے سے مطلب یہ تھا کہ آپ جو دین پیش کر رہے ہیں، یہ کسی جادو کا اثر ہے جبکہ اس حدیث میں جس جادو کا ذکر ہے، وہ کسی کافر شخص نے کیا تھا اور اس نے آپ پر صرف جسمانی اثر کیا تھا جو کہ عام آدمی کو محسوس بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس سے نہ آپ کے دماغ پر کوئی اثر پڑا اور نہ کوئی تعلیمات متأثر ہوئیں۔ ایسے اثرات تو بیماری کی بنا پر بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر بیماری طاری ہو سکتی ہے تو ان اثرات میں کیا حرج ہے؟ بلکہ آپ پر جادو کا اثر ہونے سے یہ ثابت ہو گیا کہ آپ جادوگر نہیں کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا، لہٰذا کافروں کے اس الزام کی تردید ہو گئی کہ آپ جادوگر ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ جادو کا اثر کسی پر بھی ہو سکتا ہے، البتہ جادو کفر ہے او اگر کوئی خاص مصلحت نہ ہو تو جادو کرنے والا واجب القتل ہے۔ یہی اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے۔ و اللہ اعلم