سنن النسائي - حدیث 4083

كِتَابُ المُحَارَبَة السِّحْرُ ضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ ابْنِ إِدْرِيسَ قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لِصَاحِبِهِ: اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ، قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: لَا تَقُلْ نَبِيٌّ، لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ، فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ، فَقَالَ لَهُمْ: «لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ، وَلَا تَسْحَرُوا، وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَقْذِفُوا الْمُحْصَنَةَ، وَلَا تَوَلَّوْا يَوْمَ الزَّحْفِ، وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً يَهُودُ أَنْ لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ» فَقَبَّلُوا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ، وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: «فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي؟» قَالُوا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا بِأَنْ لَا يَزَالَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ، وَإِنَّا نَخَافُ إِنِ اتَّبَعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا يَهُودُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4083

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان جادو کا بیان حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: آئو اس نبی کے پاس چلیں۔ اس کے ساتھ نے اس سے کہا: اسے نبی نہ کہو۔ اگر اس نے تیری بات سن لی تو اس کی آنکھیں چار ہو جائیں گی۔ پھر وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپ سے ’’نو واضح آیات‘‘ کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو۔ چوری نہ کرو۔ زنا نہ کرو۔ کسی قابل احترام جان کو ناحق قتل نہ کرو۔ کسی بے گناہ شخص کو (ناحق سزا دلوانے کے لیے) صاحب اقتدار کے پاس نہ لے جائو۔ جادو نہ کرو۔ سود نہ کھائو۔ کسی پاک دامن پر الزام نہ لگائو او جنگ کے دن میدانِ جنگ سے نہ بھاگو۔ اور اے یہودیو! اص تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ تم ہفتے کے دن (کی تعظیم) کے بارے میں (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) تجاوز نہ کرو۔‘‘ چنانچہ ان دونوں نے (یہ سن کر) آپ کے ہاتھ اور پائوں چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ یقینا آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر تمہیں میرا متبع بننے سے کون سی چیز مانع ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: حضرت داود ﷺ نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ نبی ان کی نسل سے آئے، نیز ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی پیروی کی تو یہودی ہمیں قتل کر دیں گے۔
تشریح : (۱) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے، تاہم بغرض تفہیم حدیث چند ضروری وضاحتیں حاضر خدمت ہیں: ’’اس کی آنکھیں چار ہو جائیں گی۔‘‘ یعنی وہ بہت خوش ہوں گے کیونکہ خوشی انسان کی قوتوں میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ (۲) ’’وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپ سے ’’نو واضح آیات‘‘ کے بارے میں پوچھا۔‘‘ ان آیات بینات سے کیا مراد ہے؟ آیات جمع ہے آیَۃٌ کی۔اس کے کئی ایک معانی ہیں، مثلاً: کسی چیز کی ظاہری علامت، نشان، خاص نشان، عبرت، سامانِ عبرت، ذات، جماعت، قرآن مقدس کا ایک جملہ یا چند جملے جن کے آخر میں وقف (گول دائرہ) ہوتا ہے۔ اسی طرح معجزہ بھی آیۃ کہلاتا ہے اور ہر وہ کلام جو لفظاً دوسرے کلام سے منفصل اور جدا وہتا ہے اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ محسوسات پر بھی بولا جاتا ہے اور معقولات پر بھی جس طرح کہ علامۃ الطریق اور الحکم الواضح وغیرہ۔ اس جگہ حدیث میں اس سے کیا مراد ہے، احکام یا معجزے؟ اگر تسع آیات بینات سے مراد احکام ہوں، پھر تو حدیث میں کوئی اشکال باقی نہیں کہتا کیونکہ ان یہودیوں کو سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو، زنانہ کرو، سود نہ کھائو، کسی بے گناہ پر ظلم و زیادتی یا اسے قتل کرانے کے لیے حاکم و سلطان کے پاس نہ لے جائو وغیرہ، یعنی آپ نے ان کے سوال کے جواب میں احکام ذکر فرمائے ہیں۔ چونکہ سوال و جواب میں مطابقت ہے، لہٰذا کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ لیکن یہاں آیات بینات سے مراد احکام نہیں بلکہ معجزات ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ مسند احمد اور جامع ترمذی کی روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ان دونوں (یہودیوں) نے آیت مبارکہ {وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ} (بنی اسرائیل الاسراء ۱۷:۱۰۱) کے بارے میں سوال کیا۔ جامع ترمذی کی روایت میں بھی اس قسم کی تصریح ہے۔ دیکھئے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ، مسند الامام احمد بن حنبل: ۳۰/۲۲، حدیث: ۱۸۰۹۶، و جامع الترمذی، تفسیر القرآن، بنی اسرائل، حدیث: ۳۱۴۴) بہرحال اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا سوال احکام کی بابت نہیں تھا بلکہ ان نو معروف اور اہم معجزات کے متعلق تھا جو موسیٰ ﷺ کو عطا فرما کر فرعون اور اس کی فاسق و فاجر قوم کی طرف بھیجا گیا تھا اور ان معجزات سے مراد ہیں: عصا، ید بیضا وغیرہ۔ ایک مقام پر قرآن مجید میں اس کی صراحت کچھ یوں فرمائی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے: {وَاَلْقِ عَصَاکَ … تِسْعِ اٰیٰتٍ اِِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہِ اِِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ} (النمل ۲۷:۱۰-۱۲) اس مقام پر نو میں سے صرف دو معجزے مذکور ہیں، باقی مفصل طور پر سورۂ اعراف میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ ارشاد باری ہے: {وَ لَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ … فَاسْتَکْبَرُوْا وَ کَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَo} (الاعراف ۷:۱۳۰-۱۳۳) ویسے موسی ﷺ کو ان نو معجزات کے علاوہ اور بھی کئی معجزے دیے گئے تھے، مثلاً: پتھر پر مارنے سے پانی کے چشمے جاری ہونا، بادلوں کا سایہ کرنا اور من و سلویٰ نازل کرنا وغیرہ جو مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو دیے گئے۔ اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سوال معجزات ہی کے بارے میں تھا، نہ کہ احکام کے بارے میں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ موسیٰ ﷺ کو فرعون کی طرف ہی بھیجا گیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی واضح طور پر تصریح موجود ہے۔ اگر ان نو واضح آیات سے مراد احکام ہوں تو اس سے فرعون اور اس کی قوم پر کوئی حجت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ اصل بات تو فرعون اور اس کی قوم سے موسیٰ ﷺ کی نبوت و رسالت تسلیم کرانا، اور انہیں ان پر ایمان لانے پر آمادہ کرنا تھا۔ اگر ان سے مراد احکام ہوں تو اس سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا، یعنی موسیٰ ﷺ کی نبوت و رسالت کا اثبات اور منکرین کی تردید۔ اب رہا یہ اشکال کہ سوال تو تھا معجزات کی بابت جبکہ جواب میں احکام ارشاد فرما دیے گئے۔ اس کی کیا وجہ؟ علامہ سندھی رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہودیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ان مشہور و معروف نو معجزات ہی کا ذکر فرمایا تھا، کسی وجہ سے راوی نے ان کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد ان عام احکام کا ذکر کر دیا جو تمام اقوام و ملل کے لیے واجب العمل ہیں۔ تورات میں بھی یہ سب احکام مذکور ہیں۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس حدی کے ایک راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظے میں خرابی ہے جس کی وجہ سے اس پر جواب خلط ملط ہو گیا ہے اور اس نے نو معجزات ان دس کلمات کو بنا دیا ہے جو تورات میں مذکور ہیں لیکن یہ فرعون پر حجت قائم کرنے اور موسیٰ ﷺ کی نبوت و صداقت کی دلیل نہیں بن سکتے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ بنی اسرائیل، تحت آیۃ: ۱۰۱، و ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائی، المحاربۃ، حدیث: ۳ث۴۰، و التعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی، المحاربۃ، حدیث: ۴۰۸۳) بلاشبہ مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’نو واضح آیات‘‘ سے مراد: عصا، ید بیضا، قحط، پھلوں کی کمی، طوفان، جوئیں، ٹڈیاں، مینڈک اور خون ہیں۔ ویسے ان کے علاوہ حضرت موسیٰ ﷺ کو اور معجزے بھی دیے گئے تھے مگر ان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے نہ کہ آلِ فرعون سے۔ یہ تفصیل تو تھی نو واضح آیات کی بابت۔ اب باقی رہ گئی دسویں چیز، یعنی جو صرف یہودیوں کے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی بھی اس میں ان کا شریک نہیں، تو اس سے مراد، جیسا کہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے، ہفتے کی تعظیم کرنا اور وہ تعظیم بھی صرف اسی حد تک معلوم ہوتی ہے کہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں اور بس۔ چونکہ باقی نو احکام تمام ملل و اقوام میں مشترک ہیں جبکہ یہ دسواں حکم صرف یہودیوں کے لیے تھا، اس لیے فرمایا گیا کہ ’’اے یہودیو! یہ تمہارے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی اس میں تمہارا شریک نہیں۔ و اللہ اعلم (۳) ’’صاحب اقتدار کے پاس نہ لے جائو‘‘ تساکہ اسے کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر ناحق سزا دلوائو یا اسے قتل کرا دو، یا اس پر کسی قسم کی زیادتی اور ظلم کرائو۔ (۴) ’’تجاوز نہ کرو‘‘ یعنی اس دن مچھلی کا شکار نہ کرنے کے متعلق۔ (۵) ’’ہاتھ اورپائوں چومے‘‘ محبت اور پایر میں یا بطور احترام بوسہ دینا ایک فطری امر ہے۔ بچوں اور بزرگوں کو بوسے دیے جاتے ہیں، البتہ پائوں کے بوسے میں سجدے سے مشابہت ہوتی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔ (۶) ’’نبی ان کی نسل سے آئے‘‘ اس بات سے ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ داود ﷺ نے اس کی بابت دعا کی تھی کہ ان کی نسل ہی سے نبی آئیں، چونکہ آپ نبی ہیں، لہٰذا آپ کی یہ دعا قبول ہو گی، اس لیے ہم اس نبی کے آنے کے منتظر ہیں اور پھر ہم اسی کی اتباع کریں گے۔ لیکن یہودیوں کا یہ صرویح جھوٹ ہے، اس لیے کہ یہ ناممکن ہے کہ سیّدنا داود ﷺ جیسے جلیل القدر نبی اس قسم کی کوئی دعا کریں جبکہ انہیں یہ بھی علم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کا تاج حضرت محمد کریمﷺ کے سر پر سجانا ہے۔ سیدنا داود ﷺ پر یہودیوں کا یہ محض افترا ہے کیونکہ وہ تو تورات و زبور میں یہ پڑھ چکے تھے کہ حضرت محمدﷺ بطور خاتم النبیین مبعوث ہوں گے، نیز یہ بھی کہ آپ سابقہ ادیان و شرائع کو منسوخ کریں گے۔ اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے داود ﷺ ایسی دعا کیونکر فرما سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دعا اللہ تعالیٰ کی اس اطلاع کے بھی خلاف ہے جو کہ اس نے حضرت محمدﷺ کی شان و مرتبے کے متعلق اپنے انبیاء و رسل کو دی ہے۔ و اللہ اعلم۔ مذکور بات یہودیوں میں غلط مشہور کر دی گئی تھی ورنہ یہ بات عقلاً صحیح ہے نہ نقلاً۔ حضرت داود ﷺ سے پہلے بھی انبیاء مختلف نسلوں سے آئے، بعد میں بھی۔ ممکن نہ تھا کہ ساری دنیا کے لیے انبیاء صرف ایک ہی نسل سے آئیں۔ یہ بات نبی کی بصیرت سے مخفی نہیں رہ سکتی تھی، لہٰذا وہ یہ دعا نہیں کر سکتے تھے۔ (۷) ’’قتل کر دیں گے‘‘ رسول اللہﷺ پر ایمان نہ لانے کی دوسری وجہ ان یہودیوں نے یہ بیان کی کہ آپ پر ایمان لانے کی وجہ سے ہمیں جان کا خطرہ ہے، لہٰذا ہم ایمان نہیں لاتے۔ ان کا یہ بہانہ بھی بلاکل بھونڈا اور غلط تھا کیونکہ اگر وہ ایمان لے آتے تو وہ رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہتے، اس لیے باقی یہودیوں کو یہ جرأت ہی نہ ہو سکتی کہ وہ انہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے قتل کرتے؟ پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تو مومن بن گئے تھے، کیا انہیں قتل کیا گیا تھا جو انہیں کیا جاتا؟ یہ بھی ان کا صریح جھوٹ تھا۔ (۱) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے، تاہم بغرض تفہیم حدیث چند ضروری وضاحتیں حاضر خدمت ہیں: ’’اس کی آنکھیں چار ہو جائیں گی۔‘‘ یعنی وہ بہت خوش ہوں گے کیونکہ خوشی انسان کی قوتوں میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ (۲) ’’وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپ سے ’’نو واضح آیات‘‘ کے بارے میں پوچھا۔‘‘ ان آیات بینات سے کیا مراد ہے؟ آیات جمع ہے آیَۃٌ کی۔اس کے کئی ایک معانی ہیں، مثلاً: کسی چیز کی ظاہری علامت، نشان، خاص نشان، عبرت، سامانِ عبرت، ذات، جماعت، قرآن مقدس کا ایک جملہ یا چند جملے جن کے آخر میں وقف (گول دائرہ) ہوتا ہے۔ اسی طرح معجزہ بھی آیۃ کہلاتا ہے اور ہر وہ کلام جو لفظاً دوسرے کلام سے منفصل اور جدا وہتا ہے اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ محسوسات پر بھی بولا جاتا ہے اور معقولات پر بھی جس طرح کہ علامۃ الطریق اور الحکم الواضح وغیرہ۔ اس جگہ حدیث میں اس سے کیا مراد ہے، احکام یا معجزے؟ اگر تسع آیات بینات سے مراد احکام ہوں، پھر تو حدیث میں کوئی اشکال باقی نہیں کہتا کیونکہ ان یہودیوں کو سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو، زنانہ کرو، سود نہ کھائو، کسی بے گناہ پر ظلم و زیادتی یا اسے قتل کرانے کے لیے حاکم و سلطان کے پاس نہ لے جائو وغیرہ، یعنی آپ نے ان کے سوال کے جواب میں احکام ذکر فرمائے ہیں۔ چونکہ سوال و جواب میں مطابقت ہے، لہٰذا کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ لیکن یہاں آیات بینات سے مراد احکام نہیں بلکہ معجزات ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ مسند احمد اور جامع ترمذی کی روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ان دونوں (یہودیوں) نے آیت مبارکہ {وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ} (بنی اسرائیل الاسراء ۱۷:۱۰۱) کے بارے میں سوال کیا۔ جامع ترمذی کی روایت میں بھی اس قسم کی تصریح ہے۔ دیکھئے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ، مسند الامام احمد بن حنبل: ۳۰/۲۲، حدیث: ۱۸۰۹۶، و جامع الترمذی، تفسیر القرآن، بنی اسرائل، حدیث: ۳۱۴۴) بہرحال اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا سوال احکام کی بابت نہیں تھا بلکہ ان نو معروف اور اہم معجزات کے متعلق تھا جو موسیٰ ﷺ کو عطا فرما کر فرعون اور اس کی فاسق و فاجر قوم کی طرف بھیجا گیا تھا اور ان معجزات سے مراد ہیں: عصا، ید بیضا وغیرہ۔ ایک مقام پر قرآن مجید میں اس کی صراحت کچھ یوں فرمائی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے: {وَاَلْقِ عَصَاکَ … تِسْعِ اٰیٰتٍ اِِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہِ اِِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ} (النمل ۲۷:۱۰-۱۲) اس مقام پر نو میں سے صرف دو معجزے مذکور ہیں، باقی مفصل طور پر سورۂ اعراف میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ ارشاد باری ہے: {وَ لَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ … فَاسْتَکْبَرُوْا وَ کَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَo} (الاعراف ۷:۱۳۰-۱۳۳) ویسے موسی ﷺ کو ان نو معجزات کے علاوہ اور بھی کئی معجزے دیے گئے تھے، مثلاً: پتھر پر مارنے سے پانی کے چشمے جاری ہونا، بادلوں کا سایہ کرنا اور من و سلویٰ نازل کرنا وغیرہ جو مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو دیے گئے۔ اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سوال معجزات ہی کے بارے میں تھا، نہ کہ احکام کے بارے میں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ موسیٰ ﷺ کو فرعون کی طرف ہی بھیجا گیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی واضح طور پر تصریح موجود ہے۔ اگر ان نو واضح آیات سے مراد احکام ہوں تو اس سے فرعون اور اس کی قوم پر کوئی حجت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ اصل بات تو فرعون اور اس کی قوم سے موسیٰ ﷺ کی نبوت و رسالت تسلیم کرانا، اور انہیں ان پر ایمان لانے پر آمادہ کرنا تھا۔ اگر ان سے مراد احکام ہوں تو اس سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا، یعنی موسیٰ ﷺ کی نبوت و رسالت کا اثبات اور منکرین کی تردید۔ اب رہا یہ اشکال کہ سوال تو تھا معجزات کی بابت جبکہ جواب میں احکام ارشاد فرما دیے گئے۔ اس کی کیا وجہ؟ علامہ سندھی رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہودیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ان مشہور و معروف نو معجزات ہی کا ذکر فرمایا تھا، کسی وجہ سے راوی نے ان کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد ان عام احکام کا ذکر کر دیا جو تمام اقوام و ملل کے لیے واجب العمل ہیں۔ تورات میں بھی یہ سب احکام مذکور ہیں۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس حدی کے ایک راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظے میں خرابی ہے جس کی وجہ سے اس پر جواب خلط ملط ہو گیا ہے اور اس نے نو معجزات ان دس کلمات کو بنا دیا ہے جو تورات میں مذکور ہیں لیکن یہ فرعون پر حجت قائم کرنے اور موسیٰ ﷺ کی نبوت و صداقت کی دلیل نہیں بن سکتے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ بنی اسرائیل، تحت آیۃ: ۱۰۱، و ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائی، المحاربۃ، حدیث: ۳ث۴۰، و التعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی، المحاربۃ، حدیث: ۴۰۸۳) بلاشبہ مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’نو واضح آیات‘‘ سے مراد: عصا، ید بیضا، قحط، پھلوں کی کمی، طوفان، جوئیں، ٹڈیاں، مینڈک اور خون ہیں۔ ویسے ان کے علاوہ حضرت موسیٰ ﷺ کو اور معجزے بھی دیے گئے تھے مگر ان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے نہ کہ آلِ فرعون سے۔ یہ تفصیل تو تھی نو واضح آیات کی بابت۔ اب باقی رہ گئی دسویں چیز، یعنی جو صرف یہودیوں کے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی بھی اس میں ان کا شریک نہیں، تو اس سے مراد، جیسا کہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے، ہفتے کی تعظیم کرنا اور وہ تعظیم بھی صرف اسی حد تک معلوم ہوتی ہے کہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں اور بس۔ چونکہ باقی نو احکام تمام ملل و اقوام میں مشترک ہیں جبکہ یہ دسواں حکم صرف یہودیوں کے لیے تھا، اس لیے فرمایا گیا کہ ’’اے یہودیو! یہ تمہارے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی اس میں تمہارا شریک نہیں۔ و اللہ اعلم (۳) ’’صاحب اقتدار کے پاس نہ لے جائو‘‘ تساکہ اسے کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر ناحق سزا دلوائو یا اسے قتل کرا دو، یا اس پر کسی قسم کی زیادتی اور ظلم کرائو۔ (۴) ’’تجاوز نہ کرو‘‘ یعنی اس دن مچھلی کا شکار نہ کرنے کے متعلق۔ (۵) ’’ہاتھ اورپائوں چومے‘‘ محبت اور پایر میں یا بطور احترام بوسہ دینا ایک فطری امر ہے۔ بچوں اور بزرگوں کو بوسے دیے جاتے ہیں، البتہ پائوں کے بوسے میں سجدے سے مشابہت ہوتی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔ (۶) ’’نبی ان کی نسل سے آئے‘‘ اس بات سے ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ داود ﷺ نے اس کی بابت دعا کی تھی کہ ان کی نسل ہی سے نبی آئیں، چونکہ آپ نبی ہیں، لہٰذا آپ کی یہ دعا قبول ہو گی، اس لیے ہم اس نبی کے آنے کے منتظر ہیں اور پھر ہم اسی کی اتباع کریں گے۔ لیکن یہودیوں کا یہ صرویح جھوٹ ہے، اس لیے کہ یہ ناممکن ہے کہ سیّدنا داود ﷺ جیسے جلیل القدر نبی اس قسم کی کوئی دعا کریں جبکہ انہیں یہ بھی علم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کا تاج حضرت محمد کریمﷺ کے سر پر سجانا ہے۔ سیدنا داود ﷺ پر یہودیوں کا یہ محض افترا ہے کیونکہ وہ تو تورات و زبور میں یہ پڑھ چکے تھے کہ حضرت محمدﷺ بطور خاتم النبیین مبعوث ہوں گے، نیز یہ بھی کہ آپ سابقہ ادیان و شرائع کو منسوخ کریں گے۔ اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے داود ﷺ ایسی دعا کیونکر فرما سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دعا اللہ تعالیٰ کی اس اطلاع کے بھی خلاف ہے جو کہ اس نے حضرت محمدﷺ کی شان و مرتبے کے متعلق اپنے انبیاء و رسل کو دی ہے۔ و اللہ اعلم۔ مذکور بات یہودیوں میں غلط مشہور کر دی گئی تھی ورنہ یہ بات عقلاً صحیح ہے نہ نقلاً۔ حضرت داود ﷺ سے پہلے بھی انبیاء مختلف نسلوں سے آئے، بعد میں بھی۔ ممکن نہ تھا کہ ساری دنیا کے لیے انبیاء صرف ایک ہی نسل سے آئیں۔ یہ بات نبی کی بصیرت سے مخفی نہیں رہ سکتی تھی، لہٰذا وہ یہ دعا نہیں کر سکتے تھے۔ (۷) ’’قتل کر دیں گے‘‘ رسول اللہﷺ پر ایمان نہ لانے کی دوسری وجہ ان یہودیوں نے یہ بیان کی کہ آپ پر ایمان لانے کی وجہ سے ہمیں جان کا خطرہ ہے، لہٰذا ہم ایمان نہیں لاتے۔ ان کا یہ بہانہ بھی بلاکل بھونڈا اور غلط تھا کیونکہ اگر وہ ایمان لے آتے تو وہ رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہتے، اس لیے باقی یہودیوں کو یہ جرأت ہی نہ ہو سکتی کہ وہ انہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے قتل کرتے؟ پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تو مومن بن گئے تھے، کیا انہیں قتل کیا گیا تھا جو انہیں کیا جاتا؟ یہ بھی ان کا صریح جھوٹ تھا۔