كِتَابُ المُحَارَبَة ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى الْأَعْمَشِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ صحيح أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ الْأَشْعَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: غَضِبَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى رَجُلٍ غَضَبًا شَدِيدًا حَتَّى تَغَيَّرَ لَوْنُهُ، قُلْتُ: يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَئِنْ أَمَرْتَنِي لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ، فَكَأَنَّمَا صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ بَارِدٌ، فَذَهَبَ غَضَبُهُ عَنِ الرَّجُلِ، قَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَبَا بَرْزَةَ وَإِنَّهَا لَمْ تَكُنْ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: «هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ أَبُو نَصْرٍ، وَاسْمُهُ حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ خَالَفَهُ شُعْبَةُ»
کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان
اس حدیث میں اعمش پر ( اس کے شاگردوں کے ) اختلاف کا بیان
حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک آدمی پر بہت زیادہ ناراض ہوئے حتی کہ ان کا رنگ بدل گیا۔ میں نے عرض کی: اے خلیفۂ رسول اللہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اتار دوں گا۔ (میری اس بات سے) گویا ان پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا، چنانچہ اس شخص پر سے ان کا غصہ ختم ہو گیا۔ اور فرمانے لگے: اے ابوبرزہ! تیری ماں تجھے گم پائے! رسول اللہﷺ کے بعد کسی کا یہ مرتبہ اور حق نہیں۔
امام ابو عبدالرحمن نسائی ( رحمہ اللہ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ درست ابو نصر ہے اور اس (ابونصر) کا نام حمید بن ہلال ہے۔ شعبہ نے زید بن ابو انیسہ کی مخالفت کی ہے (یعنی عمرو بن مرہ سے اس کی روایت میں مخالفت کی ہے)۔
تشریح :
(۱) امام نسائی رحمہ اللہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ سے مذکورہ حدیث زید نے بیان کی تو عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ کہا۔ لیکن عمرو بن مرہ سے یہی روایت امام شعبہ نے بیان کی تو فرمایا: عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَصْرٍ، یعنی ابو نضرہ (بالضاد) کے بجائے ابو نصر (بالصاد) کہا، نیز اس میں ۃ، یعنی جو حالت وقف میں ’’ہـ‘‘ پڑھی جاتی ہے، وہ بھی بیان نہیں کی، صرف ابو نصر کہا اور بس۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ شعبہ نے زید کی مخالفت کی ہے اور وہ زید سے احفظ و اتقن ہے، اس لیے شعبہ کی بات درست ہے اور صحیح لفظ ابو نصر ہے، جبکہ زید کی بات مبنی برخطا ہے۔ و اللہ اعلم۔ (۲) ’’رنگ بدل گیا‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی بردبار اور متحمل مزاج شخص تھے۔ جلدی اور زیادہ غصے میں نہیں آتے تھے۔ اس شخص نے کوئی بڑی غلطی یا گستاخی کی ہو گی جس پر اس قدر غصہ آ گیا۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ (۳) ’’ٹھنڈا پانی‘‘ قربان جائیے خلیفۂ رسول پر کہ غلط بات سن کر حالت بدل گئی، حالانکہ ظاہراً یہ بات ان کے حق میں تھی۔ اگر کوئی خوشامد پسند بادشاہ ہوتا تو اس کا پارہ اور چڑھتا مگر یہ خلیفۂ رسول تھے۔ فوراً ناراضی کا اظہار فرمایا کہ میرے بارے میں غلو کیوں کیا؟ یاد رہے خلیفۂ رسول کا لقب صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ خاص تھا، باقی تمام خلفاء راشدین کو امیر المومنین کہا جاتا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ انہوں نے خلافت رسول کا حق ادا کر دیا۔ جب تک اُس ’’کمزور جان‘‘ میں جان رہی، رسول اللہﷺ کے دین میں ذرہ بھر تبدیلی برداشت نہ کی۔ (۴) ’’تیری ماں تجھے گم پائے‘‘ یعنی تو مر جائے۔ یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے اور اہل عرب میں اس کا استعمال عام ہے۔ اس جگہ اس کا مقصد اظہار ناراضی ہے نہ کہ بددعا۔ عرف عام میں ایسا ہوتا ہے۔ (۵) ’’یہ مرتبہ اور حق نہیں‘‘ کہ اس کی ناراضی کسی کے قتل کا موجب ہو۔ یہ صرف رسول اللہﷺ کی شان ہے کہ جس پر ناراض ہو جائیں، اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی جا سکتی ہے اور اجازت ملنے پر اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ میری تیری ناراضی کا یہ درجہ نہیں۔
(۱) امام نسائی رحمہ اللہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ سے مذکورہ حدیث زید نے بیان کی تو عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ کہا۔ لیکن عمرو بن مرہ سے یہی روایت امام شعبہ نے بیان کی تو فرمایا: عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَصْرٍ، یعنی ابو نضرہ (بالضاد) کے بجائے ابو نصر (بالصاد) کہا، نیز اس میں ۃ، یعنی جو حالت وقف میں ’’ہـ‘‘ پڑھی جاتی ہے، وہ بھی بیان نہیں کی، صرف ابو نصر کہا اور بس۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ شعبہ نے زید کی مخالفت کی ہے اور وہ زید سے احفظ و اتقن ہے، اس لیے شعبہ کی بات درست ہے اور صحیح لفظ ابو نصر ہے، جبکہ زید کی بات مبنی برخطا ہے۔ و اللہ اعلم۔ (۲) ’’رنگ بدل گیا‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی بردبار اور متحمل مزاج شخص تھے۔ جلدی اور زیادہ غصے میں نہیں آتے تھے۔ اس شخص نے کوئی بڑی غلطی یا گستاخی کی ہو گی جس پر اس قدر غصہ آ گیا۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ (۳) ’’ٹھنڈا پانی‘‘ قربان جائیے خلیفۂ رسول پر کہ غلط بات سن کر حالت بدل گئی، حالانکہ ظاہراً یہ بات ان کے حق میں تھی۔ اگر کوئی خوشامد پسند بادشاہ ہوتا تو اس کا پارہ اور چڑھتا مگر یہ خلیفۂ رسول تھے۔ فوراً ناراضی کا اظہار فرمایا کہ میرے بارے میں غلو کیوں کیا؟ یاد رہے خلیفۂ رسول کا لقب صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ خاص تھا، باقی تمام خلفاء راشدین کو امیر المومنین کہا جاتا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ انہوں نے خلافت رسول کا حق ادا کر دیا۔ جب تک اُس ’’کمزور جان‘‘ میں جان رہی، رسول اللہﷺ کے دین میں ذرہ بھر تبدیلی برداشت نہ کی۔ (۴) ’’تیری ماں تجھے گم پائے‘‘ یعنی تو مر جائے۔ یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے اور اہل عرب میں اس کا استعمال عام ہے۔ اس جگہ اس کا مقصد اظہار ناراضی ہے نہ کہ بددعا۔ عرف عام میں ایسا ہوتا ہے۔ (۵) ’’یہ مرتبہ اور حق نہیں‘‘ کہ اس کی ناراضی کسی کے قتل کا موجب ہو۔ یہ صرف رسول اللہﷺ کی شان ہے کہ جس پر ناراض ہو جائیں، اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی جا سکتی ہے اور اجازت ملنے پر اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ میری تیری ناراضی کا یہ درجہ نہیں۔