سنن النسائي - حدیث 4075

كِتَابُ المُحَارَبَة الْحُكْمُ فِيمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْرَائِيلُ، عَنْ عُثْمَانَ الشَّحَّامِ قَالَ: كُنْتُ أَقُودُ رَجُلًا أَعْمَى فَانْتَهَيْتُ إِلَى عِكْرِمَةَ، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ أَعْمَى كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ، وَكَانَ لَهُ مِنْهَا ابْنَانِ، وَكَانَتْ تُكْثِرُ الْوَقِيعَةَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَسُبُّهُ، فَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ، وَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ ذَكَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَعَتْ فِيهِ، فَلَمْ أَصْبِرْ أَنْ قُمْتُ إِلَى الْمِغْوَلِ، فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا، فَاتَّكَأْتُ عَلَيْهِ فَقَتَلْتُهَا، فَأَصْبَحَتْ قَتِيلًا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَمَعَ النَّاسَ وَقَالَ: «أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا لِي عَلَيْهِ حَقٌّ، فَعَلَ مَا فَعَلَ إِلَّا قَامَ» فَأَقْبَلَ الْأَعْمَى يَتَدَلْدَلُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ أُمَّ وَلَدِي، وَكَانَتْ بِي لَطِيفَةً رَفِيقَةً، وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ، وَلَكِنَّهَا كَانَتْ تُكْثِرُ الْوَقِيعَةَ فِيكَ وَتَشْتُمُكَ، فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي، وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ، فَلَمَّا كَانَتِ الْبَارِحَةُ ذَكَرَتْكَ فَوَقَعَتْ فِيكَ، فَقُمْتُ إِلَى الْمِغْوَلِ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا، فَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4075

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان جو شخص نبی اکرمﷺ کو گالی دے ، اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ حضرت عثمان شحام سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک نابینا شخص کو لیے جا رہا تھا کہ میں حضرت عکرمہ کے پاس پہنچا تو وہ بیان فرمانے لگے کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک نابینا شخص تھا۔ اس کی ایک لونڈی تھی جس سے اس کے دو بیٹے بھی تھے لیکن وہ اکثر رسول اللہﷺ کی عیب جوئی کیا کرتی اور آپ کو گالیاں بکتی تھی۔ وہ (نابینا شخص) اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ باز نہ آتی تھی، وہ اسے روکتا تھا مگر وہ رکتی نہ تھی۔ (وہ نابینا شخص کہتے ہیں:) ایک رات میں نے نبیٔ اکرمﷺ کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو پھر برا بھلا کہنا شروع کر دیا تو میں صبر نہ کر سکا۔ میں نے ایک خنجر پکڑا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اوپر سے پورا بوجھ ڈال دیا اور اسے قتل کر دیا۔ صبح ہوئی تو اس کے قتل کا شور مچ گیا۔ نبیﷺ سے بھی اس (کے قتل) کا تذکرہ کیا گیا، چنانچہ آپ نے سب لوگوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا: ’’میں اس شخص کو جس پر میرا حق ہے اور اس نے یہ کام کیا ہے، اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے۔‘‘ چنانچہ وہ نابینا شخص لڑکھڑاتا ہوا آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اسے قتل کیا ہے۔ یہ میری لونڈی تھی اور میرے ساتھ بہت شفقت اور محبت کرنے والی تھی اور اس سے میرے موتیوں جیسے دو بیٹے بھی ہیں لیکن وہ اکثر آپ کی عیب جوئی کیا کرتی تھی اور آپ کو گالیاں بکتی تھی۔ میں اسے روکتا تھا، وہ رکتی نہ تھی۔ میں اسے ڈانٹتا تھا، وہ سمجھتی نہ تھی۔ گزشتہ رات میں نے آپ کا ذکر کیا تو وہ آپ کو برا بھلا کہنے لگی۔ (میں صبر نہ کر سکا۔) میں نے خنجر پکڑا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر پورا بوجھ ڈال دیا حتی کہ میں نے اسے قتل کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’خبردار! گواہ رہو کہ اس کا خون ضائع ہے۔ (اس کے قتل کا قصاص ہے نہ دیت)۔‘‘
تشریح : (۱) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل صریح ہے کہ نبیﷺ کو گالی بکنے والے کی سزا قتل ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس اور نبیﷺ کی پاکیزہ ذات کی بابت اس قسم کی زبان درازی کرنے سے ذمی شخص کا ذمہ اور مسلمان کا اسلام ختم ہو جاتا ہے۔ (۳) اس حدیث سے معلوم ہوا نبیٔ اکرمﷺ کو گالی دینے والا واجب القتل ہے، خواہ مرد ہو یا عورت۔ وہ اگر مسلمان تھا تو گالی دینے سے کافر و مرتد بن گیا کیونکہ رسالت کی تصدیق نہ رہی، اور ایک مسلمان کے لیے توحید و رسالت کی تصدیق ضروری چیز ہے، لہٰذا اسے ارتداد والی سزا دی جائے گی اور اگر وہ ذمی تھا تو آپﷺ کو گالی دینے سے اس کا ذمہ ختم ہو گیا کیونکہ اسلامی حکومت کے تحت کافروں کے لیے ذمہ اور پناہ رسول اللہﷺ کی طرف سے ہے، اور آپ کو گالی دینا ذمہ سے دست بردار ہونے کے مترادف ہے، اس لیے اس کا خون معصوم و محفوظ نہ رہا، چنانچہ اسے قتل کیا جائے گا۔ مذکورہ حدیث اس معنی میں صریح ہے۔ وہ لونڈی بھی کافر اور ذمی تھی، مسلمان نہ تھی۔ کعب بن اشرف کا قتل بھی اس مسئلے کی واضح دلیل ہے۔ الا یہ کہ وہ توبہ کر کے مسلمان ہو جائے کیونکہ اسلام پہلے کے ہر گناہ کو ختم کر دیتا ہے۔ ائمۂ کرام میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ ’’ذمیوں کو اس جرم میں قتل نہ کیا جائے گا کیونکہ ان کے دوسرے عقائد جو خالص کفر و شرک ہیں، ان کے خون کو مباح نہیں کرتے تو یہ جرم کیسے مباح کر دے گا؟‘‘ حالانکہ ان کو اپنے عقائد و اعمال پر کاربند رہنے کی اجازت ہے مگر علانیہ نہیں۔ نبیﷺ کو گالی بکنا کوئی مخفی چیز نہیں بلکہ یہ علانیہ ہو گا، نیز جس طرح انہیں یہ اجازت نہیں کہ کسی کو قتل کریں، اسی طرح ان کو یہ بھی اجازت نہیں کہ آپﷺ کو گالی دیں۔ آپﷺ کو گالی دینا یقینا ایک مسلمان کو قتل کرنے سے بڑھ کر ہے۔ ان کا ذمی ہونا انہیں ہر من مانی کی اجازت نہیں دیتا۔ عام آدمی کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں چہ جائیکہ مسلمانوں کے جان و ایمان سے بڑھ کر محترم نبیٔ اکرمﷺ کو (خاکم بدہن) گالی دینے کی اجازت ہو۔ (۴) آفریں صد آفریں ہے اس نابینا صحابی کی ایمان غیرت اور دینی حمیت پر کہ وہ رسول اللہﷺ کی محبت میں ایسے ڈوبے ہوئے تھے جس کی مثال ناپید ہے۔ ہر چند وہ ظاہری بصارت سے محروم تھے، مگر اس کی تلافی ان کی بصیرت اور حب رسول کی معراج سے ہو گئی۔ اس غیور شخص نے اپنے معصوم بچوں کی ماں، اپنی کور چشمی کی لاٹھی اور جاں نثار رفیقۂ زندگی کو آپ کی گستاخی پر موت کے گھاٹ اُتار دیا، اس لیے کہ وہ اس کی متاعِ ایمان و دین کی غارت گر تھی۔ اس بے ادب لونڈی کا جرم اس قدر سنگین تھا کہ جس میں مداہنت کرنا اور چشم پوشی سے کام لینا مومن کی دینی غیرت و حمیت کے منافی اور اس کی شانِ اسلام کے خلاف ہے۔ (۵) اس حدیث شریف سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اس قلبی الفت و محبت اور شعوری و بابصیرت عقیدت کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ جس کے مقابلے میں وہ لوگ افرادِ مخلوق میں سے کسی قریبی سے قریبی عزیز اور تعلق دار کی محبت کو خاطر میں لاتے نہ کسی قسم کی مصلحت ہی کو آڑے آنے دیتے تھے۔ رضی اللہ تعالی عنہم أجمعین۔ (۱) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل صریح ہے کہ نبیﷺ کو گالی بکنے والے کی سزا قتل ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس اور نبیﷺ کی پاکیزہ ذات کی بابت اس قسم کی زبان درازی کرنے سے ذمی شخص کا ذمہ اور مسلمان کا اسلام ختم ہو جاتا ہے۔ (۳) اس حدیث سے معلوم ہوا نبیٔ اکرمﷺ کو گالی دینے والا واجب القتل ہے، خواہ مرد ہو یا عورت۔ وہ اگر مسلمان تھا تو گالی دینے سے کافر و مرتد بن گیا کیونکہ رسالت کی تصدیق نہ رہی، اور ایک مسلمان کے لیے توحید و رسالت کی تصدیق ضروری چیز ہے، لہٰذا اسے ارتداد والی سزا دی جائے گی اور اگر وہ ذمی تھا تو آپﷺ کو گالی دینے سے اس کا ذمہ ختم ہو گیا کیونکہ اسلامی حکومت کے تحت کافروں کے لیے ذمہ اور پناہ رسول اللہﷺ کی طرف سے ہے، اور آپ کو گالی دینا ذمہ سے دست بردار ہونے کے مترادف ہے، اس لیے اس کا خون معصوم و محفوظ نہ رہا، چنانچہ اسے قتل کیا جائے گا۔ مذکورہ حدیث اس معنی میں صریح ہے۔ وہ لونڈی بھی کافر اور ذمی تھی، مسلمان نہ تھی۔ کعب بن اشرف کا قتل بھی اس مسئلے کی واضح دلیل ہے۔ الا یہ کہ وہ توبہ کر کے مسلمان ہو جائے کیونکہ اسلام پہلے کے ہر گناہ کو ختم کر دیتا ہے۔ ائمۂ کرام میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ ’’ذمیوں کو اس جرم میں قتل نہ کیا جائے گا کیونکہ ان کے دوسرے عقائد جو خالص کفر و شرک ہیں، ان کے خون کو مباح نہیں کرتے تو یہ جرم کیسے مباح کر دے گا؟‘‘ حالانکہ ان کو اپنے عقائد و اعمال پر کاربند رہنے کی اجازت ہے مگر علانیہ نہیں۔ نبیﷺ کو گالی بکنا کوئی مخفی چیز نہیں بلکہ یہ علانیہ ہو گا، نیز جس طرح انہیں یہ اجازت نہیں کہ کسی کو قتل کریں، اسی طرح ان کو یہ بھی اجازت نہیں کہ آپﷺ کو گالی دیں۔ آپﷺ کو گالی دینا یقینا ایک مسلمان کو قتل کرنے سے بڑھ کر ہے۔ ان کا ذمی ہونا انہیں ہر من مانی کی اجازت نہیں دیتا۔ عام آدمی کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں چہ جائیکہ مسلمانوں کے جان و ایمان سے بڑھ کر محترم نبیٔ اکرمﷺ کو (خاکم بدہن) گالی دینے کی اجازت ہو۔ (۴) آفریں صد آفریں ہے اس نابینا صحابی کی ایمان غیرت اور دینی حمیت پر کہ وہ رسول اللہﷺ کی محبت میں ایسے ڈوبے ہوئے تھے جس کی مثال ناپید ہے۔ ہر چند وہ ظاہری بصارت سے محروم تھے، مگر اس کی تلافی ان کی بصیرت اور حب رسول کی معراج سے ہو گئی۔ اس غیور شخص نے اپنے معصوم بچوں کی ماں، اپنی کور چشمی کی لاٹھی اور جاں نثار رفیقۂ زندگی کو آپ کی گستاخی پر موت کے گھاٹ اُتار دیا، اس لیے کہ وہ اس کی متاعِ ایمان و دین کی غارت گر تھی۔ اس بے ادب لونڈی کا جرم اس قدر سنگین تھا کہ جس میں مداہنت کرنا اور چشم پوشی سے کام لینا مومن کی دینی غیرت و حمیت کے منافی اور اس کی شانِ اسلام کے خلاف ہے۔ (۵) اس حدیث شریف سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اس قلبی الفت و محبت اور شعوری و بابصیرت عقیدت کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ جس کے مقابلے میں وہ لوگ افرادِ مخلوق میں سے کسی قریبی سے قریبی عزیز اور تعلق دار کی محبت کو خاطر میں لاتے نہ کسی قسم کی مصلحت ہی کو آڑے آنے دیتے تھے۔ رضی اللہ تعالی عنہم أجمعین۔