سنن النسائي - حدیث 4073

كِتَابُ المُحَارَبَة تَوْبَةُ الْمُرْتَدِّ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا دَاوُدُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَسْلَمَ ثُمَّ ارْتَدَّ وَلَحِقَ بِالشِّرْكِ، ثُمَّ تَنَدَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَى قَوْمِهِ، سَلُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَجَاءَ قَوْمُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: إِنَّ فُلَانًا قَدْ نَدِمَ وَإِنَّهُ أَمَرَنَا أَنْ نَسْأَلَكَ: هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَنَزَلَتْ: {كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ} [آل عمران: 86] إِلَى قَوْلِهِ {غَفُورٌ رَحِيمٌ} [البقرة: 173] فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأَسْلَمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4073

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مرتد کی توبہ ( قبول ہو سکتی ہے ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی مسلمان ہو گیا، پھر مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا ملا۔ بعد ازاں وہ شرمندہ ہوا تو اس نے اپن قوم کو پیغام بھیجا کہ رسول اللہﷺ سے پوچھو، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس کی قوم کے لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ فلاں شخص نادم ہے اور اس نے ہمیں پیغام دیا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ چنانچہ یہ آیت اتری: {کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ … غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے، جبکہ وہ گواہی دے چکے کہ بے شک رسول اللہ(ﷺ) برحق ہیں اور ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ ان لوگوں کی سزا یہی ہے کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ وہ اس (لعنت) میں ہمیشہ رہیں گے،خ ان سے عذاب نہ تو ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی۔ مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لی، بے شک اللہ تعالیٰ بہت درگزر اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ پھر اسے پیغام بھیجا گیا اور وہ مسلمان ہو گیا۔
تشریح : (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ مرتد کی توبہ قابل قبول ہے۔ (توبہ نہ کرنے کی صورت میں اس کی سزا قتل ہے۔) (۲) حدیث شریف سے بعض آیاتِ قرآنی کا سبب نزول معلوم ہوتا ہے۔ (۳) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ارتداد کی وجہ سے سابقہ تمام اعمالِ صالح باطل اور ضائع ہو جاتے ہیں۔ (۴) خالص توبہ کرنے سے تمام برے اعمال اور کفریہ و شرکیہ عقائد مٹ جاتے ہیں، خواہ جس نوعیت ہی کے ہوں۔ (۵) یہ حدیث شریف اللہ تعالیٰ کی کمال مہربانی، وافر فضل و کرم اور وسعتِ معافی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ رب العزت سے عمداً اعراض کرتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اسے بھی معافی مل جاتی ہے۔ و اللہ اعلم۔ (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ مرتد کی توبہ قابل قبول ہے۔ (توبہ نہ کرنے کی صورت میں اس کی سزا قتل ہے۔) (۲) حدیث شریف سے بعض آیاتِ قرآنی کا سبب نزول معلوم ہوتا ہے۔ (۳) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ارتداد کی وجہ سے سابقہ تمام اعمالِ صالح باطل اور ضائع ہو جاتے ہیں۔ (۴) خالص توبہ کرنے سے تمام برے اعمال اور کفریہ و شرکیہ عقائد مٹ جاتے ہیں، خواہ جس نوعیت ہی کے ہوں۔ (۵) یہ حدیث شریف اللہ تعالیٰ کی کمال مہربانی، وافر فضل و کرم اور وسعتِ معافی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ رب العزت سے عمداً اعراض کرتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اسے بھی معافی مل جاتی ہے۔ و اللہ اعلم۔