سنن النسائي - حدیث 4072

كِتَابُ المُحَارَبَة الْحُكْمُ فِي الْمُرْتَدِّ صحيح أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُفَضَّلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ قَالَ: زَعَمَ السُّدِّيُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ: «اقْتُلُوهُمْ، وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ»، فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَاسْتَبَقَ إِلَيْهِ سَعِيدُ بْنُ حُرَيْثٍ وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَسَبَقَ سَعِيدٌ عَمَّارًا، وَكَانَ أَشَبَّ الرَّجُلَيْنِ فَقَتَلَهُ، وَأَمَّا مَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ فَأَدْرَكَهُ النَّاسُ فِي السُّوقِ فَقَتَلُوهُ، وَأَمَّا عِكْرِمَةُ فَرَكِبَ الْبَحْرَ، فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ، فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِينَةِ: أَخْلِصُوا، فَإِنَّ آلِهَتَكُمْ لَا تُغْنِي عَنْكُمْ شَيْئًا هَاهُنَا. فَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاللَّهِ لَئِنْ لَمْ يُنَجِّنِي مِنَ الْبَحْرِ إِلَّا الْإِخْلَاصُ، لَا يُنَجِّينِي فِي الْبَرِّ غَيْرُهُ، اللَّهُمَّ إِنَّ لَكَ عَلَيَّ عَهْدًا، إِنْ أَنْتَ عَافَيْتَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ أَنْ آتِيَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَضَعَ يَدِي فِي يَدِهِ، فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا كَرِيمًا، فَجَاءَ فَأَسْلَمَ، وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ، فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ، جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ» فَقَالُوا: وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ، هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ؟ قَالَ: «إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4072

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مرتد کا حکم حضرت مصعب بن سعد اپنے والد محترم (حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں: جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا، رسول اللہﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا تمام لوگوں کو امان دے دی۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم ان کو کعبہ شریف کے پردوں سے لٹکا وہا پائو، تب بھی قتل کر دو۔‘‘ (وہ چار مرد یہ تھے:) عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔ عبداللہ بن خطل کعبے کے پردوں سے لٹکا ہوا پایا گیا۔ حضرت سعید بن حریث اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی طرف لپکے۔ سعید عمار سے پہلے پہنچ گئے کیونکہ وہ عمار کی نسبت جوان تھے۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پکڑ لیا اور قتل کر دیا۔ عکرمہ بھاگ کر سمندر میں کشتی پر سوار ہو گیا۔ بہت تیز ہوا چل پڑی۔ (کشتی طوفان میں پھنس گئی۔) کشتی والے کہنے لگے: اب خالص اللہ تعالیٰ کو پکارو کیونکہ تمہارے معبود (بت وغیرہ) یہاں (طوفان میں) تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔ عکرمہ نے کہا: اگر سمندر میں خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے علاوہ نجات نہیں تو خشکی میں بھی خالص اللہ تعالیٰ کو پکارے بغیر نجات نہیں مل سکتی۔ اے اللہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے اس مصیبت سے، جس میں میں پھنس چکا ہوں، بچا لے تو میں ضرور حضرت محمدﷺ کے پاس جا کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں انہیں بہت زیادہ معاف کرنے والا اور احسان کرنے والا پائوں گا۔ پھر وہ آئے اور مسلمان ہو گئے۔ باقی رہا عبداللہ بن ابی سرح! تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چھپ گیا۔ جب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو حضرت عثمان اسے لے کر آئے حتیٰ کہ اسے بالکل آپ کے پاس کھڑا کر دیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! عبداللہ سے بیعت لے لیں۔ آپ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگے۔ تین بار حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہی گزارش کی۔ آپ ہر دفعہ (عملاً) انکار فرما رہے تھے۔ آخر تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی، پھر آپ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تم میں کوئی سمجھ دار شخص نہیں تھا کہ جب تم دیکھ رہے تھے کہ میں نے اس کی بیعت لینے سے ہاتھ روک رکھا ہے تو کوئی شخص اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ آپ آنکھ سے ہلکا سا اشارہ فرما دیتے۔ آپ نے فرمایا: ’’نبی کے لائق نہیں کہ اس کی آنکھ خائن ہو۔‘‘
تشریح : (۱) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بیت اللہ میں حدود قائم کی جا سکتی ہیں لیکن یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے مساجد میں حدود قائم کرنے سے روکا ہے۔ (سنن ابی داود، حدیث: ۴۴۹۰) جب عام مساجد میں حدود قائم کرنا منع ہے تو بیت اللہ میں بالاولی منع ہو گا، تاہم اگر کوئی مجرم وہاں چھپتا ہے تو اس کو وہاں سے نکال کر اس پر حد قائم کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک ابن خطل کے قتل کا تعلق ہے تو اس کا جواز اسی وقت سے مقید ہو گا کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے بیت اللہ کو محدود وقت کے لیے میرے لیے حلال کیا گیا تھا، البتہ حدود حرم کے اندر شرعی حد قائم کی جا سکتی ہے۔ (۲) توحید خالص، اللہ کی بارگاہ میں التجا اور عجز و نیاز کی وجہ سے دنیوی مصیبتیں بھی ٹل جاتی ہیں اور انسان مشکلات سے صحیح سلامت بچ نکلتا ہے۔ (۳) رسول اللہﷺ خلق عظیم کے مالک تھے۔ {وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ} (القلم: ۶۴:۴) مکارم اخلاق میں آپ درجۂ کمال پر فائز تھے۔ معاف کرنا، درگزر سے کام لینا، نیز اپنی باکمال شفقت و رحمت سے شاد کام کرنا، آپ کے ایسے عالی شان اور عمدہ فضائل و خصائل ہیں کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی ان کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ ابو جہل ملعون کے بیٹے، جلیل القدر صحابیٔ رسول حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اقرار اس کی واضح دلیل ہے۔ (۴) اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرے، اسے وہ بھلائی او خیر مل کر ہی رہتی ہے۔ اللہ عز و جل کے ارادے کے مقابلے میں کسی کا ارادہ، خواہش اور چاہت پوری ہوتی ہے نہ رکاوٹ ہی بن سکتی ہے۔ (۵) قرائن قویہ پائے جانے کی وجہ سے کسی بھی عمل کی گنجائش نکلتی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کا بیعت نہ لینا ایک قوی قرینہ تھا کہ اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی اس قرینے کو سمجھتے ہوئے عبداللہ بن سعد کو قتل کر دیتا تو جائز تھا۔ (۶) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کمال درجے کے مؤدب رسول تھے کہ آپ کا صریح حکم نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے ایک بہت بڑے مجرم کو بھی قتل نہیں کیا۔ (۷) انبیاء و رسل علیہم السلام انتہائی ارفع و اعلیٰ شان کے مالک ہوتے ہیں بخلاف ملوک و سلاطین، امراء و وزراء اور عوام الناس کے، کہ وہ خفیہ ذریعے، اشارے اور طریقے سے لوگوں کے ساتھ قطعاً کوئی معاملہ نہیں کرتے۔ (۸) آنکھ وغیرہ سے مخفی اشارہ کرنے کو خیانت قرار دیا گیا ہے، لہٰذا کسی بھی دین دار اور اچھے انسان کے لیے یہ روا نہیں کیونکہ یہ بہت بڑا عیب ہے۔ (۹) ’’چار مرد، دو عورتیں‘‘ دیگر روایات میں اور مرد و عورتوں کا بھی ذکر ہے، مثلاً: وحشی بن حرب اور مفصد وغیرہ، البتہ کسی اور مرد اور عورت کو قتل نہیں کیا گیا۔ ان چار مرد اور دو عورتوں میں سے بھی بعض کو معاف مل گئی۔ (۱۰) ان چار مردوں میں سے تین عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن ابی سرح مسلمان ہو کر بعد میں مرتد ہو گئے تھے۔ عبداللہ بن ابی سرح دوبارہ مسلمان ہو گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سفارش پر ان کو معافی مل گئی۔ عبداللہ بن خطل اور مقیس بن صبابہ دونوں پر قتل کا جرم بھی ثابت تھا۔ دونوں نے ایک ایک مسلمان قتل کیا تھا اور بھاگ کر مکہ آ گئے اور مرتد ہو گئے تھے، لہٰذا ان کو قتل اور ارتداد کے جرم میں قتل کر دیا گیا۔ قتل کی وجہ سے ان کو معافی نہ مل سکتی تھی۔ البتہ عکرمہ بن ابی جہل کا کوئی ایسا جرم نہ تھا بلکہ ان کو اللہ کے دشمن ابوجہل کا بیٹا ہونے اور کفار قریش کا سردار ہونے کی وجہ سے قتل کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ لیکن ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث رضی اللہ عنہا نے ان کے لیے امان حاصل کی اور ان کو یمن سے واپس لے آئیں اور وہ مسلمان ہو گئے اور خوب مسلمان ہوئے حتی کہ فی سبیل اللہ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ (۱۱) دو عورتیں عبداللہ بن خطل کی لونڈیاں تھیں جن کو اس نے مرتد ہونے کے بعد رسول اللہﷺ کی ہجو اور توہین کے لیے مقرر کیا تھا۔ رسول اللہﷺ کی توہین بھی سزائے موت کا مستحق بنا دیتی ہے۔ مگر ایک لونڈی کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے اس کو معاف کر دیا گیا اور دوسری کو قتل کر دیا گیا۔ (۱۲) ان مرد و عورت کے علاوہ حویرث بن نقید کو بھی رسول اللہﷺ کی ہجو و توہین کی سزا میں قتل کر دیا گیا۔ باقی سب مکہ والوں کو معافی مل گئی۔ (۱۳) ’’اس کی آنکھ خائن ہو‘‘ آپ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وجہ سے قتل کا حکم نہیں دے رہے تھے لیکن اگر کوئی قتل کر دیتا تو آپ روکتے بھی نہ کیونکہ اس کے قتل کا فرمان تو جاری ہو چکا تھا۔ اس بات کو کوئی سمجھ لیتا تو اسے قتل کر دیتا۔ آپ کے بیعت نہ لینے میں بھی اس طرح اشارہ تھا کہ قتل کا فرمان قائم ہے۔ آنکھ سے اشارۂ قتل آپ نہیں فرما سکتے تھے کیونکہ جو بات زبان سے نہیں کہہ رہے تھے، اسے آنکھ سے کہنا خیانت کی ذیل میں آ سکتا ہے۔ کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے چھپا کر قتل کا حکم دیتے یہ نبی کی شان کے لائق نہ تھا۔ کوئی شخص خود سے نہیں اٹھا، لہٰذا آخر آپ نے بیعت لے لی -ﷺ- (۱۴) ثابت ہوا مرتد توبہ کرے اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے تو اس کی سزا کی معافی حاکم وقت کا اختیار ہے۔ (۱) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بیت اللہ میں حدود قائم کی جا سکتی ہیں لیکن یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے مساجد میں حدود قائم کرنے سے روکا ہے۔ (سنن ابی داود، حدیث: ۴۴۹۰) جب عام مساجد میں حدود قائم کرنا منع ہے تو بیت اللہ میں بالاولی منع ہو گا، تاہم اگر کوئی مجرم وہاں چھپتا ہے تو اس کو وہاں سے نکال کر اس پر حد قائم کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک ابن خطل کے قتل کا تعلق ہے تو اس کا جواز اسی وقت سے مقید ہو گا کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے بیت اللہ کو محدود وقت کے لیے میرے لیے حلال کیا گیا تھا، البتہ حدود حرم کے اندر شرعی حد قائم کی جا سکتی ہے۔ (۲) توحید خالص، اللہ کی بارگاہ میں التجا اور عجز و نیاز کی وجہ سے دنیوی مصیبتیں بھی ٹل جاتی ہیں اور انسان مشکلات سے صحیح سلامت بچ نکلتا ہے۔ (۳) رسول اللہﷺ خلق عظیم کے مالک تھے۔ {وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ} (القلم: ۶۴:۴) مکارم اخلاق میں آپ درجۂ کمال پر فائز تھے۔ معاف کرنا، درگزر سے کام لینا، نیز اپنی باکمال شفقت و رحمت سے شاد کام کرنا، آپ کے ایسے عالی شان اور عمدہ فضائل و خصائل ہیں کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی ان کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ ابو جہل ملعون کے بیٹے، جلیل القدر صحابیٔ رسول حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اقرار اس کی واضح دلیل ہے۔ (۴) اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرے، اسے وہ بھلائی او خیر مل کر ہی رہتی ہے۔ اللہ عز و جل کے ارادے کے مقابلے میں کسی کا ارادہ، خواہش اور چاہت پوری ہوتی ہے نہ رکاوٹ ہی بن سکتی ہے۔ (۵) قرائن قویہ پائے جانے کی وجہ سے کسی بھی عمل کی گنجائش نکلتی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کا بیعت نہ لینا ایک قوی قرینہ تھا کہ اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی اس قرینے کو سمجھتے ہوئے عبداللہ بن سعد کو قتل کر دیتا تو جائز تھا۔ (۶) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کمال درجے کے مؤدب رسول تھے کہ آپ کا صریح حکم نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے ایک بہت بڑے مجرم کو بھی قتل نہیں کیا۔ (۷) انبیاء و رسل علیہم السلام انتہائی ارفع و اعلیٰ شان کے مالک ہوتے ہیں بخلاف ملوک و سلاطین، امراء و وزراء اور عوام الناس کے، کہ وہ خفیہ ذریعے، اشارے اور طریقے سے لوگوں کے ساتھ قطعاً کوئی معاملہ نہیں کرتے۔ (۸) آنکھ وغیرہ سے مخفی اشارہ کرنے کو خیانت قرار دیا گیا ہے، لہٰذا کسی بھی دین دار اور اچھے انسان کے لیے یہ روا نہیں کیونکہ یہ بہت بڑا عیب ہے۔ (۹) ’’چار مرد، دو عورتیں‘‘ دیگر روایات میں اور مرد و عورتوں کا بھی ذکر ہے، مثلاً: وحشی بن حرب اور مفصد وغیرہ، البتہ کسی اور مرد اور عورت کو قتل نہیں کیا گیا۔ ان چار مرد اور دو عورتوں میں سے بھی بعض کو معاف مل گئی۔ (۱۰) ان چار مردوں میں سے تین عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن ابی سرح مسلمان ہو کر بعد میں مرتد ہو گئے تھے۔ عبداللہ بن ابی سرح دوبارہ مسلمان ہو گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سفارش پر ان کو معافی مل گئی۔ عبداللہ بن خطل اور مقیس بن صبابہ دونوں پر قتل کا جرم بھی ثابت تھا۔ دونوں نے ایک ایک مسلمان قتل کیا تھا اور بھاگ کر مکہ آ گئے اور مرتد ہو گئے تھے، لہٰذا ان کو قتل اور ارتداد کے جرم میں قتل کر دیا گیا۔ قتل کی وجہ سے ان کو معافی نہ مل سکتی تھی۔ البتہ عکرمہ بن ابی جہل کا کوئی ایسا جرم نہ تھا بلکہ ان کو اللہ کے دشمن ابوجہل کا بیٹا ہونے اور کفار قریش کا سردار ہونے کی وجہ سے قتل کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ لیکن ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث رضی اللہ عنہا نے ان کے لیے امان حاصل کی اور ان کو یمن سے واپس لے آئیں اور وہ مسلمان ہو گئے اور خوب مسلمان ہوئے حتی کہ فی سبیل اللہ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ (۱۱) دو عورتیں عبداللہ بن خطل کی لونڈیاں تھیں جن کو اس نے مرتد ہونے کے بعد رسول اللہﷺ کی ہجو اور توہین کے لیے مقرر کیا تھا۔ رسول اللہﷺ کی توہین بھی سزائے موت کا مستحق بنا دیتی ہے۔ مگر ایک لونڈی کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے اس کو معاف کر دیا گیا اور دوسری کو قتل کر دیا گیا۔ (۱۲) ان مرد و عورت کے علاوہ حویرث بن نقید کو بھی رسول اللہﷺ کی ہجو و توہین کی سزا میں قتل کر دیا گیا۔ باقی سب مکہ والوں کو معافی مل گئی۔ (۱۳) ’’اس کی آنکھ خائن ہو‘‘ آپ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وجہ سے قتل کا حکم نہیں دے رہے تھے لیکن اگر کوئی قتل کر دیتا تو آپ روکتے بھی نہ کیونکہ اس کے قتل کا فرمان تو جاری ہو چکا تھا۔ اس بات کو کوئی سمجھ لیتا تو اسے قتل کر دیتا۔ آپ کے بیعت نہ لینے میں بھی اس طرح اشارہ تھا کہ قتل کا فرمان قائم ہے۔ آنکھ سے اشارۂ قتل آپ نہیں فرما سکتے تھے کیونکہ جو بات زبان سے نہیں کہہ رہے تھے، اسے آنکھ سے کہنا خیانت کی ذیل میں آ سکتا ہے۔ کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے چھپا کر قتل کا حکم دیتے یہ نبی کی شان کے لائق نہ تھا۔ کوئی شخص خود سے نہیں اٹھا، لہٰذا آخر آپ نے بیعت لے لی -ﷺ- (۱۴) ثابت ہوا مرتد توبہ کرے اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے تو اس کی سزا کی معافی حاکم وقت کا اختیار ہے۔