كِتَابُ المُحَارَبَة الْحُكْمُ فِي الْمُرْتَدِّ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وحَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَا: حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ، ثُمَّ أَرْسَلَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ بَعْدَ ذَلِكَ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ إِلَيْكُمْ، فَأَلْقَى لَهُ أَبُو مُوسَى وِسَادَةً لِيَجْلِسَ عَلَيْهَا، فَأُتِيَ بِرَجُلٍ كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ، ثُمَّ كَفَرَ، فَقَالَ مُعَاذٌ: «لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا قُتِلَ قَعَدَ
کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان
مرتد کا حکم
حضرت ابو بردہ اپنے والد محترم (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے انہیں یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا۔ پھر اس کے بعد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا۔ جب وہ آئے تو کہنے لگے: اے لوگو! میں تمہاری طرف رسول اللہﷺ کا قاصد ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے لیے تکیہ یا گدا رکھا تاکہ وہ اس پر بیٹھیں۔ اتنے میں ایک آدمی لایا گیا جو پہلے یہودی تھا، پھر مسلمان ہو گیا، پھر کافر بن گیا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں نہیں بیٹھوں گا حتیٰ کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کا فیصلہ ہے۔ تین مرتبہ فرمایا، پھر جب اسے قتل کر دیا گیا تو آپ بیٹھے۔
تشریح :
(۱) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل واضح ہے کہ مرتد اگر اپنے ارتداد سے توبہ نہ کرے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم وہتا ہے کہ ہر شخص اپنا تعارف کرا سکتا ہے، چاہے وہ صاحب مرتبہ ہو یا کوئی عام آدمی ہو جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل یمن کو اپنا تعارف کرایا۔ (۳) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علمائ، امراء اور مسلمان بھائی ایک دوسرے کی زیارت کے لیے جا سکتے ہیں۔ (۴) اکرام ضیف، یعنی مہمان کی عزت افزائی کرنے پر بھی یہ حدیث دلالت کرتی ہے، جس طرح کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے معزز مہمان حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیی تکیہ یا گدا وغیرہ بچھایا تھا۔ (۵) حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منکر اور غیر شرعی کام کے انکار میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ (۶) جس شخص پر، اس کے کسی جرم کی وجہ سے، حد واجب ہو چکی ہو اس پر حد قائم کرنا ضروری ہے۔ (۷) یہ حدیث دلیل ہے کہ شرعی حد کی تنفیذ، حاکم وقت کی شرعی ذمہ داری ہے، اس میں سستی، غفلت اور اپنی صوابدید پر معافی دینا درست نہیں۔ و اللہ اعلم۔
(۱) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل واضح ہے کہ مرتد اگر اپنے ارتداد سے توبہ نہ کرے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم وہتا ہے کہ ہر شخص اپنا تعارف کرا سکتا ہے، چاہے وہ صاحب مرتبہ ہو یا کوئی عام آدمی ہو جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل یمن کو اپنا تعارف کرایا۔ (۳) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علمائ، امراء اور مسلمان بھائی ایک دوسرے کی زیارت کے لیے جا سکتے ہیں۔ (۴) اکرام ضیف، یعنی مہمان کی عزت افزائی کرنے پر بھی یہ حدیث دلالت کرتی ہے، جس طرح کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے معزز مہمان حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیی تکیہ یا گدا وغیرہ بچھایا تھا۔ (۵) حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منکر اور غیر شرعی کام کے انکار میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ (۶) جس شخص پر، اس کے کسی جرم کی وجہ سے، حد واجب ہو چکی ہو اس پر حد قائم کرنا ضروری ہے۔ (۷) یہ حدیث دلیل ہے کہ شرعی حد کی تنفیذ، حاکم وقت کی شرعی ذمہ داری ہے، اس میں سستی، غفلت اور اپنی صوابدید پر معافی دینا درست نہیں۔ و اللہ اعلم۔