سنن النسائي - حدیث 4062

كِتَابُ المُحَارَبَة الْحُكْمُ فِي الْمُرْتَدِّ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَزْهَرِ أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ فَعَلَيْهِ الرَّجْمُ، أَوْ قَتَلَ عَمْدًا فَعَلَيْهِ الْقَوَدُ، أَوِ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلَامِهِ فَعَلَيْهِ الْقَتْلُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4062

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مرتد کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ’’کسی مسلمان شخص کا خون بہانا جائز نہیں مگر تین جرائم میں سے کسی ایک کی بنا پر: جو شخص شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے، اس پر رجم کی سزا ہے۔ جو شخص کسی کو جان بوجھ کر ناحق قتل کر دے تو اسے قصاصاً قتل کر دیا جائے گا اور جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
تشریح : (۱) ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مطابقت بالکل واضح ہے کہ جو شخص مرتد ہو جائے اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (۲) حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ بات ان بلوائیوں سے فرمائی تھی جنہوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور بالآخر ان لوگوں نے آپ کو شہید کر دیا۔ (۳) مرتد اپنے ارتداد پر قائم رہے تو اتفاق ہے ک اسے قتل کر دیا جائے گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مرتدین کے خلاف جنگ لڑی اور انہیں بلادریغ قتل کیا۔ کسی صحابی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ گویا صحابہ کا اس سزا پر اجماع ہے۔ البتہ مرتد اسے کہا جائے گا جو صراحتاً جان بوجھ کر کفریہ اعمال کا ارتکاب کرے یا اسلام چھوڑنے کا اعلان کر دے یا کافروں سے مل جائے یا رسول اللہﷺ کو گالی دے وغیرہ۔ اسلامی مذاہب کے باہمی فقہی اختلافات کی بنا پر کسی کو مرتد نہیں کہا جائے گا جب تک وہ اصول دین پر قائم ہے۔ (۱) ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مطابقت بالکل واضح ہے کہ جو شخص مرتد ہو جائے اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (۲) حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ بات ان بلوائیوں سے فرمائی تھی جنہوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور بالآخر ان لوگوں نے آپ کو شہید کر دیا۔ (۳) مرتد اپنے ارتداد پر قائم رہے تو اتفاق ہے ک اسے قتل کر دیا جائے گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مرتدین کے خلاف جنگ لڑی اور انہیں بلادریغ قتل کیا۔ کسی صحابی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ گویا صحابہ کا اس سزا پر اجماع ہے۔ البتہ مرتد اسے کہا جائے گا جو صراحتاً جان بوجھ کر کفریہ اعمال کا ارتکاب کرے یا اسلام چھوڑنے کا اعلان کر دے یا کافروں سے مل جائے یا رسول اللہﷺ کو گالی دے وغیرہ۔ اسلامی مذاہب کے باہمی فقہی اختلافات کی بنا پر کسی کو مرتد نہیں کہا جائے گا جب تک وہ اصول دین پر قائم ہے۔