سنن النسائي - حدیث 406

كِتَابُ الْغُسْلِ وَالتَّيَمُّمِ بَاب الِاسْتِتَارِ عِنْدَ الِاغْتِسَالِ صحيح أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ يَعْلَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَلِيمٌ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَتِرْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 406

کتاب: غسل اور تیمم سے متعلق احکام و مسائل غسل کرتے وقت پردہ کرنا حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھلی جگہ میں غسل کرت دیکھا۔ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے، پھر اللہ کی حمدوثنا کی اور فرمایا: ’’اللہ عزوجل بہت بردبار، حیادار اور پردے والا ہے۔ حیا اور پردے کو پسند فرماتا ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی غسل کرے تو پردے میں کرے۔‘‘
تشریح : (۱) حلیم۔ حی۔ ستیر اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام صفات کاملہ سے متصف ہے اور وہ صفات اللہ تعالیٰ میں اس کی شان کے مطابق متحقق ہوتی ہیں۔ ہمیں ان کی حقیقت سے متعلق بحث نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہم ان کی حقیقت کو جان ہی سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ہماری عقل سے ماورا ہیں۔ ارشادالٰہی ہے: (لیس کمثلہ شیء) (الشوریٰ۴۲:۱۱) ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں۔‘‘ ان صفات کو تسلیم کرنا اور بلاوجہ ان کی من گھڑت تاویلات سے اجتناب ضروری ہے، ورنہ قرآن و حدیث کا انکار لازم آسکتا ہے۔ (۲) غسل اس طرح پردے میں ہونا چاہیے کہ جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آئے۔ یہ بہتر ہے ۔ اس طرح انسان جن و انس کے برے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ورنہ نظر وغیرہ لگنے کا خطرہ رہے گا، نیز اس سے شرم و حیا میں اضافہ ہوگا۔ اور شرم و حیا ایمان کا جز ہے۔ (۱) حلیم۔ حی۔ ستیر اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام صفات کاملہ سے متصف ہے اور وہ صفات اللہ تعالیٰ میں اس کی شان کے مطابق متحقق ہوتی ہیں۔ ہمیں ان کی حقیقت سے متعلق بحث نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہم ان کی حقیقت کو جان ہی سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ہماری عقل سے ماورا ہیں۔ ارشادالٰہی ہے: (لیس کمثلہ شیء) (الشوریٰ۴۲:۱۱) ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں۔‘‘ ان صفات کو تسلیم کرنا اور بلاوجہ ان کی من گھڑت تاویلات سے اجتناب ضروری ہے، ورنہ قرآن و حدیث کا انکار لازم آسکتا ہے۔ (۲) غسل اس طرح پردے میں ہونا چاہیے کہ جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آئے۔ یہ بہتر ہے ۔ اس طرح انسان جن و انس کے برے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ورنہ نظر وغیرہ لگنے کا خطرہ رہے گا، نیز اس سے شرم و حیا میں اضافہ ہوگا۔ اور شرم و حیا ایمان کا جز ہے۔