كِتَابُ المُحَارَبَة النَّهْيُ عَنِ الْمُثْلَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُثُّ فِي خُطْبَتِهِ عَلَى الصَّدَقَةِ، وَيَنْهَى عَنِ الْمُثْلَةِ»
کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان
مثلہ کرنے کی ممانعت کا بیان
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے خطبے میں صدقہ کرنے کی ترغیب دلایا کرتے تھے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔
تشریح :
(۱) مثلہ سے مراد مقتول کے اعضاء (کان، ناک، شرم گاہ وغیرہ) کاٹنا ہے تاکہ لاش کی تذلیل کی جائے۔ جنگوں میں اس کا عام رواج تھا۔ کفار اس کو فخر سے کرتے تھے۔ اسلام ایک سنجیدہ دین ہے، اس لیے آپ نے جنگوں میں بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی مثلہ سے روک دیا، البتہ اگر کسی قاتل نے اپنے مقتول کے ساتھ قتل سے پہلے یا بعد میں ایسا سلوک کیا ہو تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اسی طرح کیا جائے گا تاکہ قصاص کا حق ادا ہو اور اس فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔ (۲) بعض لوگوں نے مثلہ کرنے کی ممانعت والی حدیث کی وجہ سے حدیث عرنیین کو منسوخ کہا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے ظاہراً یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے سابقہ ترجمۃ الباب کے بعد النہی عن المثلۃ کا باب باندھا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے گویا کہ انہی لوگوں کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے لیکن یہ بات درست نہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، بلکہ راجح بات یہ ہے کہ حدیث عرنیین منسوخ نہیں کیونکہ عرنیین کا مثلہ رسول اللہﷺ نے ہرگز ہرگز نہیں کیا تھا، ان کے ساتھ جو کچھ بھی کیا گیا وہ بطور قصاص ہی تھا۔ چونکہ ان لوگوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کے ساتھ اسی طرح کیا تھا، اس لیے قصاصاً ان کے ساتھ بھی اسی طرح کیا گیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، سنن نسائی کی حدیث: ۴۰۴۸ اور حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی صحیح مسلم کی حدیث: ۱۶۷۱ میں یہ صراحت موجود ہے کہ [إِنَّمَا سَمَلَ النَّبِیُّ أَعْیُنَ أُولٰئِکَ، لِأَنَّہُمْ سَمَلُوْا أَعْیُنَ الرِّعَائِ] ’’نبیﷺ نے ان لوگوں کی آنکھیں محض اس لیے پھوڑیں کہ انہوں نے چرواہوں کے آنکمیں پھوڑی تھیں۔‘‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں اور یہودی کی سزا والی احادیث کے بعد یہ روایت یہ اشارہ کرنے کے لیے ہی ذکر کی ہو کہ مندرجہ بالا احادیث اس حدیث کے خلاف نہیں ورنہ صحابہ ضرور تنبیہ فرماتے خصوصاً جبکہ ان تینوں قسم کی احادیث، یعنی حدیث عرنیین، انصاری لڑکی کے قصاص میں یہودی کو قتل کرنے اور مثلہ کرنے کی ممانعت والی حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۴۰۳۹)
(۱) مثلہ سے مراد مقتول کے اعضاء (کان، ناک، شرم گاہ وغیرہ) کاٹنا ہے تاکہ لاش کی تذلیل کی جائے۔ جنگوں میں اس کا عام رواج تھا۔ کفار اس کو فخر سے کرتے تھے۔ اسلام ایک سنجیدہ دین ہے، اس لیے آپ نے جنگوں میں بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی مثلہ سے روک دیا، البتہ اگر کسی قاتل نے اپنے مقتول کے ساتھ قتل سے پہلے یا بعد میں ایسا سلوک کیا ہو تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اسی طرح کیا جائے گا تاکہ قصاص کا حق ادا ہو اور اس فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔ (۲) بعض لوگوں نے مثلہ کرنے کی ممانعت والی حدیث کی وجہ سے حدیث عرنیین کو منسوخ کہا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے ظاہراً یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے سابقہ ترجمۃ الباب کے بعد النہی عن المثلۃ کا باب باندھا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے گویا کہ انہی لوگوں کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے لیکن یہ بات درست نہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، بلکہ راجح بات یہ ہے کہ حدیث عرنیین منسوخ نہیں کیونکہ عرنیین کا مثلہ رسول اللہﷺ نے ہرگز ہرگز نہیں کیا تھا، ان کے ساتھ جو کچھ بھی کیا گیا وہ بطور قصاص ہی تھا۔ چونکہ ان لوگوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کے ساتھ اسی طرح کیا تھا، اس لیے قصاصاً ان کے ساتھ بھی اسی طرح کیا گیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، سنن نسائی کی حدیث: ۴۰۴۸ اور حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی صحیح مسلم کی حدیث: ۱۶۷۱ میں یہ صراحت موجود ہے کہ [إِنَّمَا سَمَلَ النَّبِیُّ أَعْیُنَ أُولٰئِکَ، لِأَنَّہُمْ سَمَلُوْا أَعْیُنَ الرِّعَائِ] ’’نبیﷺ نے ان لوگوں کی آنکھیں محض اس لیے پھوڑیں کہ انہوں نے چرواہوں کے آنکمیں پھوڑی تھیں۔‘‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں اور یہودی کی سزا والی احادیث کے بعد یہ روایت یہ اشارہ کرنے کے لیے ہی ذکر کی ہو کہ مندرجہ بالا احادیث اس حدیث کے خلاف نہیں ورنہ صحابہ ضرور تنبیہ فرماتے خصوصاً جبکہ ان تینوں قسم کی احادیث، یعنی حدیث عرنیین، انصاری لڑکی کے قصاص میں یہودی کو قتل کرنے اور مثلہ کرنے کی ممانعت والی حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۴۰۳۹)