سنن النسائي - حدیث 4049

كِتَابُ المُحَارَبَة ذِكْرُ اخْتِلَافِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ، وَأَنَا أَسْمَعُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، «أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ قَتَلَ جَارِيَةً مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَى حُلِيٍّ لَهَا، وَأَلْقَاهَا فِي قَلِيبٍ، وَرَضَخَ رَأْسَهَا بِالْحِجَارَةِ، فَأُخِذَ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرْجَمَ حَتَّى يَمُوتَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4049

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان اس حدیث میں یحییٰ بن سعید پر طلحہ بن مصرف اور معاویہ بن صالح کے اختلاف کا ذکر حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی آدمی نے انصار کی ایک لڑکی کو اس کے زیورات لوٹنے کے لیے قتل کر دیا اور اس کا سر پتھر سے کچل کر اسے ایک پرانے کنویں میں پھینک دیا۔ اس یہودی کو پکڑ کر لایا گیا۔ رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ اسے پتھر سے کچلا جائے حتی کہ وہ مر جائے۔
تشریح : (۱) ترجمۃ الباب جس آیت کریمہ پر مشتمل ہے اس آیت میں ان لوگوں کے متعلق شریعت مطہرہ کا حکم بیان کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے لڑائی کرتے ہیں، زمین میں شر و فساد پھیلاتے اور بغاوت کا ارتکاب کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ حدیث میں جس یہودی کی سزا کا ذکر ہے اس نے بھی فساد فی الارض کے جرم کا ارتکاب کیا۔ ایک معصوم جان کو ناحق قتل کر کے اس کا مال لوٹا وغیرہ، لہٰذا حدیث کی باب سے مناسبت بہت واضح اور صریح ہے۔ (۲) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کو مجرم لوگوں کے متعلق معلمات حاصل کرنے کا حق ہے، نیز یہ بھی کہ وہ نرمی اور میٹھے پن سے مجرموں سے حقیقت حال اور ان کے بھید معلوم کرے جیسا کہ نبیﷺ نے پہلے اس لڑکی سے مجرم کے بارے میں معلوم کیا، پھر اسے پکڑوایا اور اس سے حقیقت واقعہ معلوم کی۔ (۳) جب کوئی مجرم -بلا اکراہ- اپنے جرم کا اقرار کرے تو اس پر حد لگانا حاکم پر واجب ہو جاتا ہے۔ (۴) ایسا اشارہ جس کی مطلوب پر دلالت واضح ہو، وہ قابل حجت ہے۔ (۵) عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے، جمہور کا یہی مذہب ہے۔ (۶) یہ روایت اس بات کی بھی تائید کرتی ہے کہ قاتل جس طریقے اور جس آلے سے مقتول کو قتل کرے، قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا خصوصاً جبکہ وہ سفاکانہ طریقے سے قتل کرے۔ لفظ قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے ان کی بات درست نہیں کیونکہ اس مفہوم کی کوئی بھی روایت صحیح نہیں جیسا کہ اس کی بابت حدیث: ۴۰۲۹ کے فوائد میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ (۱) ترجمۃ الباب جس آیت کریمہ پر مشتمل ہے اس آیت میں ان لوگوں کے متعلق شریعت مطہرہ کا حکم بیان کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے لڑائی کرتے ہیں، زمین میں شر و فساد پھیلاتے اور بغاوت کا ارتکاب کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ حدیث میں جس یہودی کی سزا کا ذکر ہے اس نے بھی فساد فی الارض کے جرم کا ارتکاب کیا۔ ایک معصوم جان کو ناحق قتل کر کے اس کا مال لوٹا وغیرہ، لہٰذا حدیث کی باب سے مناسبت بہت واضح اور صریح ہے۔ (۲) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کو مجرم لوگوں کے متعلق معلمات حاصل کرنے کا حق ہے، نیز یہ بھی کہ وہ نرمی اور میٹھے پن سے مجرموں سے حقیقت حال اور ان کے بھید معلوم کرے جیسا کہ نبیﷺ نے پہلے اس لڑکی سے مجرم کے بارے میں معلوم کیا، پھر اسے پکڑوایا اور اس سے حقیقت واقعہ معلوم کی۔ (۳) جب کوئی مجرم -بلا اکراہ- اپنے جرم کا اقرار کرے تو اس پر حد لگانا حاکم پر واجب ہو جاتا ہے۔ (۴) ایسا اشارہ جس کی مطلوب پر دلالت واضح ہو، وہ قابل حجت ہے۔ (۵) عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے، جمہور کا یہی مذہب ہے۔ (۶) یہ روایت اس بات کی بھی تائید کرتی ہے کہ قاتل جس طریقے اور جس آلے سے مقتول کو قتل کرے، قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا خصوصاً جبکہ وہ سفاکانہ طریقے سے قتل کرے۔ لفظ قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے ان کی بات درست نہیں کیونکہ اس مفہوم کی کوئی بھی روایت صحیح نہیں جیسا کہ اس کی بابت حدیث: ۴۰۲۹ کے فوائد میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔