كِتَابُ المُحَارَبَة ذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، وَثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُرَيْنَةَ نَزَلُوا فِي الْحَرَّةِ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، «فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُونُوا فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ، وَأَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ، وَارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ، وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آثَارِهِمْ، فَجِيءَ بِهِمْ، فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَسَمَّرَ أَعْيُنَهُمْ، وَأَلْقَاهُمْ فِي الْحَرَّةِ» قَالَ أَنَسٌ: «فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمْ يَكْدُمُ الْأَرْضَ بِفِيهِ عَطَشًا حَتَّى مَاتُوا»
کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان
حمید کی ، حضرت انس بن مالک سے مروی حدیث میں ناقلین کے اختلاف کا ذکر
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ حرہ کے میدان میں اترے، پھر وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کی آب و ہوا کو موافق نہ پایا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ صدقے کے اونٹوں میں رہیں اور ان کے دودھ اور پیشاب پئیں، پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کیا، اسلام سے مرتد ہو گئے اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے۔ ان کو پکڑ لایا گای تو آپ نے ان کے ہاتھ پائوں سختی کے ساتھ کاٹ دئیے، ان کی آنکھوں کو پھوڑ دیا اور انہیں گرم پتھریلے میدان میں چھوڑ دیا۔ (حضرت انس نے فرمایا:) اللہ کی قسم! میں نے دیکھا کہ وہ پیاس کی بنا پر زمین پر دانب مار رہے تھے حتی کہ اسی طرح مر گئے۔
تشریح :
’’دانت مار رہے تھے‘‘ شاید یہ الفاظ پڑھ کر کسی کی ’’حقوق انسانی کی حس‘‘ جوش مارے کہ یہ انسانیت کی توہین ہے، لیکن کیا یہ معلوم ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی رحمتﷺ نے ان کے ساتھ یہ سلوک عین قرآنی حکم کے مطابق، قصاص کے طور پر کیا تھا۔ انہوں نے بے گناہ چرواہے کی بڑی بے دردی سے جان لی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ڈاکو، مرتد اور احسان فراموش بھی تھے، پھر کس چیز کی کسر باقی رہ گئی تھی؟ لہٰذا یہ مثلہ تھا نہ ان پر ظلم و تشدد ہی بلکہ ان کے کیے کرتے کا بدلہ تھا۔ جو امن عامہ کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے، نیز شرپسند عناصر، ظلم و تعدی اور قتل و بغاوت کی روک تھام کے لیے امر لابدی ہوتا ہے۔ آج کے نام نہاد انسانیت کے خیر خواہوں کو ایسے سفاک مجرموں پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے کردار کے حاملین قابل ترس ہوتے تو سب سے پہلے ان لوگوں پر نبی رحمتﷺ ترس کھاتے۔ جن فقہاء نے اس کو مثلہ قرار دے کر منسوخ کہا ہے انہیں رجم کی سزا کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ کیا رجم مثلہ کی اس مرفوع تفسیر کے تحت نہیں آتا؟ حالانکہ وہاں تو مجرم نے کسی بے گناہ کے ساتھ ایسا سلوک بھی نہیں کیا ہوتا۔ یقینا ان لوگوں کا جرم زنا کے جرم سے بدرجہا زیادہ تھا۔
’’دانت مار رہے تھے‘‘ شاید یہ الفاظ پڑھ کر کسی کی ’’حقوق انسانی کی حس‘‘ جوش مارے کہ یہ انسانیت کی توہین ہے، لیکن کیا یہ معلوم ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی رحمتﷺ نے ان کے ساتھ یہ سلوک عین قرآنی حکم کے مطابق، قصاص کے طور پر کیا تھا۔ انہوں نے بے گناہ چرواہے کی بڑی بے دردی سے جان لی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ڈاکو، مرتد اور احسان فراموش بھی تھے، پھر کس چیز کی کسر باقی رہ گئی تھی؟ لہٰذا یہ مثلہ تھا نہ ان پر ظلم و تشدد ہی بلکہ ان کے کیے کرتے کا بدلہ تھا۔ جو امن عامہ کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے، نیز شرپسند عناصر، ظلم و تعدی اور قتل و بغاوت کی روک تھام کے لیے امر لابدی ہوتا ہے۔ آج کے نام نہاد انسانیت کے خیر خواہوں کو ایسے سفاک مجرموں پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے کردار کے حاملین قابل ترس ہوتے تو سب سے پہلے ان لوگوں پر نبی رحمتﷺ ترس کھاتے۔ جن فقہاء نے اس کو مثلہ قرار دے کر منسوخ کہا ہے انہیں رجم کی سزا کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ کیا رجم مثلہ کی اس مرفوع تفسیر کے تحت نہیں آتا؟ حالانکہ وہاں تو مجرم نے کسی بے گناہ کے ساتھ ایسا سلوک بھی نہیں کیا ہوتا۔ یقینا ان لوگوں کا جرم زنا کے جرم سے بدرجہا زیادہ تھا۔