سنن النسائي - حدیث 4029

كِتَابُ المُحَارَبَة تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ.....مِنَ الْأَرْضِ} وَفِيمَنْ نَزَلَتْ، وَذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قِلَابَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ، وَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ، فَتُصِيبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا؟» قَالُوا: بَلَى، فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَصَحُّوا، فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ، فَأَخَذُوهُمْ، فَأُتِيَ بِهِمْ، فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَّرَ أَعْيُنَهُمْ، وَنَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4029

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان اللہ تعالیٰ کے فرمان : {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ.....مِنَ الْأَرْضِ} کی تفسیر اور (اس کا بیان کہ )....الفاظ کا ذکر حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ عکل قبیلہ کے آٹھ آدمی نبیٔ اکرمﷺ کے پاس آئے (اور قبول اسلام ظاہر کیا)۔ پھر انہوں نے مدینہ کی آب و ہوا کو موافق نہ پایا اور ان کے جسم کمزور پڑ گئے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اس بات کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے (باہر رہنے والے) اونٹوں میں کیوں نہیں چلے جاتے کہ تم ان اونٹوں کے دودھ اور پیشاب پیو؟‘‘ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ وہ وہاں چلے گئے اور (اونٹوں کا) دودھ اور پیشاب پیتے رہے۔ وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں پکڑنے کے لیے آدمی بھیجے۔ انہوں نے ان لوگوں کو جا پکڑا، چنانچہ ان کو آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ پائوں سختی کے ساتھ کاٹ دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں، پھر ان کو دھوپ میں پھینک دیا حتی کہ وہ مر گئے۔
تشریح : (۱) سنن نسائی کی مذکورہ روایت، نسائی شریف کے علاوہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو داود، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کیس اتھ ساتھ مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ صحیحین سمیت دیگر تمام کتب مذکورہ میں یہ روایت ہر کتاب میں، ایک سے زیادہ مقامات میں بیان کی گئی ہے۔ یہاں نسائی شریف میں اس مقام پر ہے کہ قبیلۂ عکل کے آٹھ افراد نبیٔ اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ سنن نسائی ہی کی دوسری روایات میں، کسی میں تو حاضر ہونے والے لوگوں کو قبیلۂ عرینہ کے لوگ کہا گیا ہے اور کسی روایت میں انہیں عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھئے مذکورہ باب کے تحت وارد شدہ احادیث) مزید برآں یہ کہ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان کی گئی احادیث کی صورت حال بھی یہی ہے کہ کسی روایت میں انہیں عکل قبیلے کے افراد بتلایا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ ملاحظہ فرمائیے: (صحیح البخاری، الجہاد، الزکاۃ، باب استعمال إبل الصدقۃ و ألبانہا…، حدیث: ۱۵۰۱، و صحیح البخاری، الجہاد و السیر، باب إذا حرق المشرک المسلم ہل یحرق؟ حدیث: ۳۰۱۸، و صحیح مسلم، القسامۃ و المحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین، حدیث: ۱۶۷۱ و ما بعد) بظاہر ان احادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن ان میں تضاد قطعاً نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ آنے والے، عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ تھے۔ ان کی تعداد آٹھ تھی۔ چار افراد قبیلۂ عرینہ میں سے تھے اور تین عکل میں سے اور ایک شخص ان دونوں قبیلوں کے علاوہ کسی اور قبیلے میں سے تھا۔ چونکہ یہ سارے کے سارے آٹھوں افراد اکٹھے ہی رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے تھے، اس لیے کسی حدیث میں انہیں عکل قبیلے کے افراد کہا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ و اللّٰہ اعلم۔ (۲) ’’موافق نہ پایا‘‘ چونکہ وہ لوگ دوسرے علاقے سے آئے تھے، آب و ہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے جیسا کہ عموماً مسافروں کو کسی دوسرے ملک میں جانے سے صحت کی خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض کچھ مدت بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بعض کو طویل مدت تک بھی ادھر کی آب و ہوا موافق نہیں آتی۔ (۳) ’’دودھ اور پیشاب پیو‘‘ دودھ تو ان کی مرغوب غذا تھی۔ پیشاب پیٹ کے علاج کے لیے تجویز فرمایا۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا پیشاب پاک ہے۔ تبھی آپ نے پینے کا حکم دیا۔ جو لوگ اس کے قائل نہیں، وہ اسے علاج کی مجبوری بتلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک علاج پلید چیز کے ساتھ بھی جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اس کے قائل نہیں۔ وہ اس کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔ (۴) ’’قتل کر دیا‘‘ دراصل یہ لوگ ڈاکو تھے۔ ممکن ہے آئے ہی بری نیت سے ہوں یا اظہار اسلام دھوکا دہی کے لیے ہو۔ ہو سکتا ہے اسلام لاتے وقت نیت صحیح ہو مگر چونکہ وہ اصلاً ڈاکو تھے، اس لیے جب انہوں نے اتنے اونٹوں میں صرف دو چرواہے دیکھے تو ان کی نیت میں فتور آ گیا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانکتے ہوئے چلتے بنے۔ بعض تاریخی روایات میں ان اونٹوں کی تعداد پندرہ مذکور ہے۔ و اللّٰہ اعلم۔ (۵) ’’انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا‘‘ سنن نسائی کی اس روایت (۴۰۲۹) میں اسی طرح مفرد کے الفاظ ہیں جبکہ سنن نسائی ہی کی ایک دوسری روایت (۴۰۴۰) میں جمع کے الفاظ ہیں، یعنی انہوں نے ’’چرواہوں کو قتل کر دیا‘‘ نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات میں بھی مفرد اور جمع دونوں طرح کے الفاظ موجود ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یہ روایت چودہ مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ تیرہ مقامات پر مفرد کے الفاظ مذکور ہیں جبکہ ایک جگہ جمع کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ دیکھئے: (صحیح البخاری، الحدود، [باب] کتاب المحاربین … حدیث: ۶۸۰۲) اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت امام مسلم رحمہ اللہ بھی مفرد اور جمع، دونوں طرح کے الفاظ لائے ہیں۔ جمع کے الفاظ کے لیے دیکھئے: (صحیح مسلم، القسامۃ و المحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین، حدیث: ۱۶۷۱) اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ چرواہے صرف دو تھے۔ اس کی صراحت صحیح ابو عوانہ میں ہے۔ ایک وہ جسے رسول اللہﷺ کا چرواہا کہا گیا ہے اور اسے ہی ان لوگوں نے قتل کیا تھا۔ اس کا نام یسار تھا۔ یہ رسول اللہﷺ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ خوبصورت انداز میں نماز ادا کرتے دیکھ کر رسول اللہﷺ نے اسے آزاد فرما دیا تھا۔ دوسرا چرواہا یہ سب کچھ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا، اور مدینہ طیبہ پہنچ کر اس نے یہ اطلاع دی کہ ان لوگوں نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اور اونٹنیاں ہانک لے گئے ہیں، چنانچہ رسول اللہﷺ نے ان کے پیچھے، ان کی تلاش میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت روانہ فرمائی، انہوں نے ان بدقماش لوگوں کو راستے ہی میں جا لیا اور انہیں پکڑ کر رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا، چنانچہ آپ نے چرواہے کے قصاص میں اس کے سب قاتلوں کے ساتھ جو کہ ڈاکو اور لٹیرے بھی تھے، وہی سلوک کیا جو انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کے ساتھ کیا تھا، یعنی آپ نے ان کے ہاتھ سختی کے ساتھ کٹوا دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا۔ اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر پیاسے مر گئے۔ مقتول چرواہے کا نام یسار بن زید ابوبلال تھا، دوسرے، اطلاع دینے والے کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اس حدیث کے بیان کرنے والے اکثر راویوں کا اتفاق ہے کہ مقتول صرف نبیﷺ ہی کا چرواہا تھا، اس کے ساتھ دوسرا کوئی چرواہا قتل نہیں ہوا، جن اِکا دُکا راویوں نے جمع کے الفاظ بولے ہیں وہ مجازاً ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کو چونکہ جمع کے کم از کم افراد (أقل الجمع) دو ہوتے ہیں، چرواہے بھی دو ہی تھے اور وہ لوگ بھی ان دونوں کو قتل کنا چاہتے تھے، ایک جان بچا کر بھاگ نکلا تھا، اس لیے بعض رواۃ نے جمع کے الفاظ بیان کر دئیے ہیں۔ راجح اور درست بات یہی ہے کہ صرف ایک چرواہا ہی قتل ہوا تھا۔ اس کی تائید اصحاب مغازی کی بیان کردہ ان تاریخی روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں انہوں نے صرف ایک چرواہے یسار کے قتل ہی کا ذکر کیا ہے۔ و اللّٰہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (فتح الباری: ۱/۴۴۱، ۴۴۲) (۶) ’’حتی کہ وہ مر گئے‘‘ آپ نے ان کو یہ سخت سزا بلاوجہ نہیں دی بلکہ ان کے جرائم ایک سے زیادہ تھے۔ اسلام سے مرتد ہو گئے۔ چرواہے کو قتل کیا۔ صرف قتل ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ہاتھ پائوں کاٹے، آنکھوں میں سلائیاں پھیریں، پھر اس بے گناہ کو بھوکا پیاسا دھوپ میں گرم پتھروں پر پھینک دیا، اور خون نچڑ نچڑ کر وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اونٹ اور دیگر سامان لوٹ کر لے گئے۔ اللہ کے رسول اللہﷺ نے جو ان کو سزا دی، وہ تو صرف چرواہے کے ساتھ سلوک کا بدلہ تھا۔ باقی جرائم کی سزائیں اس کے تحت ہی آ گئیں۔ جب مجرم جرم کرتے وقت ترس نہ کھائے تو قصاص لیتے وقت اس پر بھی ترس نہیں کھانا چاہیے، ورنہ جرائم نہ رک سکیں گے۔ مجرم کو اس کے جرم کے مماثل سزا دی جانی چاہیے۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کا مفاد بھی یہی ہے۔ جن فقہاء نے اس قسم کی سزا کو لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّیْفِ جیسی ضعیف روایت کی وجہ سے منسوخ کہا ہے، درست نہیں، کیونکہ {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ} کے مفہوم سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا آیت (آیت محاربہ) تو اس بارے میں صریح ہے اور باب والی حدیث اس کی واضح تائید کرتی ہے۔ و اللہ اعلم۔ (یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔) (۷) اگر قابو آنے سے پہلے مجرم سچی توبہ کر لے تو ان شاء اللہ معافی کی امید کی جا سکتی ہے، اگرچہ حقوق العباد ہی کیوں نہ ہوں۔ و اللّٰہ اعلم۔ (۱) سنن نسائی کی مذکورہ روایت، نسائی شریف کے علاوہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو داود، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کیس اتھ ساتھ مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ صحیحین سمیت دیگر تمام کتب مذکورہ میں یہ روایت ہر کتاب میں، ایک سے زیادہ مقامات میں بیان کی گئی ہے۔ یہاں نسائی شریف میں اس مقام پر ہے کہ قبیلۂ عکل کے آٹھ افراد نبیٔ اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ سنن نسائی ہی کی دوسری روایات میں، کسی میں تو حاضر ہونے والے لوگوں کو قبیلۂ عرینہ کے لوگ کہا گیا ہے اور کسی روایت میں انہیں عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھئے مذکورہ باب کے تحت وارد شدہ احادیث) مزید برآں یہ کہ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان کی گئی احادیث کی صورت حال بھی یہی ہے کہ کسی روایت میں انہیں عکل قبیلے کے افراد بتلایا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ ملاحظہ فرمائیے: (صحیح البخاری، الجہاد، الزکاۃ، باب استعمال إبل الصدقۃ و ألبانہا…، حدیث: ۱۵۰۱، و صحیح البخاری، الجہاد و السیر، باب إذا حرق المشرک المسلم ہل یحرق؟ حدیث: ۳۰۱۸، و صحیح مسلم، القسامۃ و المحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین، حدیث: ۱۶۷۱ و ما بعد) بظاہر ان احادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن ان میں تضاد قطعاً نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ آنے والے، عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ تھے۔ ان کی تعداد آٹھ تھی۔ چار افراد قبیلۂ عرینہ میں سے تھے اور تین عکل میں سے اور ایک شخص ان دونوں قبیلوں کے علاوہ کسی اور قبیلے میں سے تھا۔ چونکہ یہ سارے کے سارے آٹھوں افراد اکٹھے ہی رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے تھے، اس لیے کسی حدیث میں انہیں عکل قبیلے کے افراد کہا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ و اللّٰہ اعلم۔ (۲) ’’موافق نہ پایا‘‘ چونکہ وہ لوگ دوسرے علاقے سے آئے تھے، آب و ہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے جیسا کہ عموماً مسافروں کو کسی دوسرے ملک میں جانے سے صحت کی خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض کچھ مدت بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بعض کو طویل مدت تک بھی ادھر کی آب و ہوا موافق نہیں آتی۔ (۳) ’’دودھ اور پیشاب پیو‘‘ دودھ تو ان کی مرغوب غذا تھی۔ پیشاب پیٹ کے علاج کے لیے تجویز فرمایا۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا پیشاب پاک ہے۔ تبھی آپ نے پینے کا حکم دیا۔ جو لوگ اس کے قائل نہیں، وہ اسے علاج کی مجبوری بتلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک علاج پلید چیز کے ساتھ بھی جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اس کے قائل نہیں۔ وہ اس کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔ (۴) ’’قتل کر دیا‘‘ دراصل یہ لوگ ڈاکو تھے۔ ممکن ہے آئے ہی بری نیت سے ہوں یا اظہار اسلام دھوکا دہی کے لیے ہو۔ ہو سکتا ہے اسلام لاتے وقت نیت صحیح ہو مگر چونکہ وہ اصلاً ڈاکو تھے، اس لیے جب انہوں نے اتنے اونٹوں میں صرف دو چرواہے دیکھے تو ان کی نیت میں فتور آ گیا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانکتے ہوئے چلتے بنے۔ بعض تاریخی روایات میں ان اونٹوں کی تعداد پندرہ مذکور ہے۔ و اللّٰہ اعلم۔ (۵) ’’انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا‘‘ سنن نسائی کی اس روایت (۴۰۲۹) میں اسی طرح مفرد کے الفاظ ہیں جبکہ سنن نسائی ہی کی ایک دوسری روایت (۴۰۴۰) میں جمع کے الفاظ ہیں، یعنی انہوں نے ’’چرواہوں کو قتل کر دیا‘‘ نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات میں بھی مفرد اور جمع دونوں طرح کے الفاظ موجود ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یہ روایت چودہ مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ تیرہ مقامات پر مفرد کے الفاظ مذکور ہیں جبکہ ایک جگہ جمع کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ دیکھئے: (صحیح البخاری، الحدود، [باب] کتاب المحاربین … حدیث: ۶۸۰۲) اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت امام مسلم رحمہ اللہ بھی مفرد اور جمع، دونوں طرح کے الفاظ لائے ہیں۔ جمع کے الفاظ کے لیے دیکھئے: (صحیح مسلم، القسامۃ و المحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین، حدیث: ۱۶۷۱) اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ چرواہے صرف دو تھے۔ اس کی صراحت صحیح ابو عوانہ میں ہے۔ ایک وہ جسے رسول اللہﷺ کا چرواہا کہا گیا ہے اور اسے ہی ان لوگوں نے قتل کیا تھا۔ اس کا نام یسار تھا۔ یہ رسول اللہﷺ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ خوبصورت انداز میں نماز ادا کرتے دیکھ کر رسول اللہﷺ نے اسے آزاد فرما دیا تھا۔ دوسرا چرواہا یہ سب کچھ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا، اور مدینہ طیبہ پہنچ کر اس نے یہ اطلاع دی کہ ان لوگوں نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اور اونٹنیاں ہانک لے گئے ہیں، چنانچہ رسول اللہﷺ نے ان کے پیچھے، ان کی تلاش میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت روانہ فرمائی، انہوں نے ان بدقماش لوگوں کو راستے ہی میں جا لیا اور انہیں پکڑ کر رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا، چنانچہ آپ نے چرواہے کے قصاص میں اس کے سب قاتلوں کے ساتھ جو کہ ڈاکو اور لٹیرے بھی تھے، وہی سلوک کیا جو انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کے ساتھ کیا تھا، یعنی آپ نے ان کے ہاتھ سختی کے ساتھ کٹوا دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا۔ اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر پیاسے مر گئے۔ مقتول چرواہے کا نام یسار بن زید ابوبلال تھا، دوسرے، اطلاع دینے والے کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اس حدیث کے بیان کرنے والے اکثر راویوں کا اتفاق ہے کہ مقتول صرف نبیﷺ ہی کا چرواہا تھا، اس کے ساتھ دوسرا کوئی چرواہا قتل نہیں ہوا، جن اِکا دُکا راویوں نے جمع کے الفاظ بولے ہیں وہ مجازاً ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کو چونکہ جمع کے کم از کم افراد (أقل الجمع) دو ہوتے ہیں، چرواہے بھی دو ہی تھے اور وہ لوگ بھی ان دونوں کو قتل کنا چاہتے تھے، ایک جان بچا کر بھاگ نکلا تھا، اس لیے بعض رواۃ نے جمع کے الفاظ بیان کر دئیے ہیں۔ راجح اور درست بات یہی ہے کہ صرف ایک چرواہا ہی قتل ہوا تھا۔ اس کی تائید اصحاب مغازی کی بیان کردہ ان تاریخی روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں انہوں نے صرف ایک چرواہے یسار کے قتل ہی کا ذکر کیا ہے۔ و اللّٰہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (فتح الباری: ۱/۴۴۱، ۴۴۲) (۶) ’’حتی کہ وہ مر گئے‘‘ آپ نے ان کو یہ سخت سزا بلاوجہ نہیں دی بلکہ ان کے جرائم ایک سے زیادہ تھے۔ اسلام سے مرتد ہو گئے۔ چرواہے کو قتل کیا۔ صرف قتل ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ہاتھ پائوں کاٹے، آنکھوں میں سلائیاں پھیریں، پھر اس بے گناہ کو بھوکا پیاسا دھوپ میں گرم پتھروں پر پھینک دیا، اور خون نچڑ نچڑ کر وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اونٹ اور دیگر سامان لوٹ کر لے گئے۔ اللہ کے رسول اللہﷺ نے جو ان کو سزا دی، وہ تو صرف چرواہے کے ساتھ سلوک کا بدلہ تھا۔ باقی جرائم کی سزائیں اس کے تحت ہی آ گئیں۔ جب مجرم جرم کرتے وقت ترس نہ کھائے تو قصاص لیتے وقت اس پر بھی ترس نہیں کھانا چاہیے، ورنہ جرائم نہ رک سکیں گے۔ مجرم کو اس کے جرم کے مماثل سزا دی جانی چاہیے۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کا مفاد بھی یہی ہے۔ جن فقہاء نے اس قسم کی سزا کو لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّیْفِ جیسی ضعیف روایت کی وجہ سے منسوخ کہا ہے، درست نہیں، کیونکہ {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ} کے مفہوم سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا آیت (آیت محاربہ) تو اس بارے میں صریح ہے اور باب والی حدیث اس کی واضح تائید کرتی ہے۔ و اللہ اعلم۔ (یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔) (۷) اگر قابو آنے سے پہلے مجرم سچی توبہ کر لے تو ان شاء اللہ معافی کی امید کی جا سکتی ہے، اگرچہ حقوق العباد ہی کیوں نہ ہوں۔ و اللّٰہ اعلم۔