سنن النسائي - حدیث 4025

كِتَابُ المُحَارَبَة قَتْلُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ، وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ فِيهِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ مَرْدَانِبَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ بْنِ شُرَيْحٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: «إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ رَأَيْتُمُوهُ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ، أَوْ يُرِيدُ يُفَرِّقُ أَمْرَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَائِنًا مَنْ كَانَ فَاقْتُلُوهُ، فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ يَرْكُضُ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4025

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان جو آدمی ( مسلمان کی ) جماعت سے الگ ہو جائے اسے قتل کرنا ، اور عرفجہ کی حدیث میں ، زیاد بن علاقہ پر ( راویوں کے ) اختلاف کا بیان حضرت عرفجہ بن شریح اشجعی رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرماتے دیکھا، آپ نے فرمایا: ’’میرے بعد بہت سے فتنہ و فساد برپا ہوں گے۔ جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ (مسلمانوں کی) جماعت سے الگ ہو گیا ہے یا محمد (ﷺ) کی امت میں پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے، جو بھی ہو اسے قتل کر دو۔ بلاشبہ جماعت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور شیطان اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو جماعت سے جدا ہوا، وہ اسے لات مار کر ہانکتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس طرح رسول اللہﷺ نے خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے اور فساد ظاہر ہوئے اور یہ سلسلۂ شر تاحال جاری ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہَا۔ (۲) یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے والا ہر شخص واجب القتل ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں: [فَاقْتُلُوْہُ] یعنی امت محمدیہ میں پھوٹ ڈالنے والے کو قتل کو دو۔ یہ الفاظ صیغۂ امر پر مشتمل ہیں اور جب تک کوئی قرینۂ صارفہ موجود نہ ہو، امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ چونکہ یہاں کوئی بھی قرینۂ صارفہ نہیں ہے، لہٰذا یہ حکم وجوبی ہے، اس لیے اسلامی حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ ایسا مجرم اگر اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو اسے قتل کی سزا دے۔ یاد رہے اسلامی حدود کا نفاذ ہر مسلم ملک کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ (۳) اس حدیث سے اللہ جل شانہ کی صفت ’’ید‘‘ کا اثبات ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ویسا ہی ہے جیسا کہ اس کی ارفع و اعلیٰ ذات کے لائق اور شایان شان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہ تو مخلوق کے ہاتھ کے مشابہ ہے اور نہ اس کے کوئی دوسرے معنیٰ، یعنی قدرت وغیرہ ہی مراد ہیں جیسا کہ مؤولین کرتے ہیں {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ} ارشاد باری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا اثبات قرآن مجید سے بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے: {تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ} (الملک ۶۷:۱) ’’ذات بڑی بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں تمام بادشاہی ہے۔‘‘ (۴) اس حدیث سے جماعت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور اس کی مدد و نصرت کبھی بھی جماعت سے الگ نہیں ہوتی، اور جماعت سے مراد دھڑے گروپ اور جماعتیں نہیں بلکہ مسلمانوں کی وہ جماعت مراد ہے جو ایک خلیفہ پر متحد ہو، نیز اس حدیث شریف سے امت مسلمہ کے اندر تفرقہ بازی، پھوٹ اور ان کے نقصان دہ اختلاف کی مضرت اور مذمت بھی واضح ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اور اس کی مدد جماعت کے ساتھ خاص ہے۔ جب جماعت پھوٹ اور اختلاف کا شکار ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اس جماعت پر سے اٹھ جائے گا اور شیطان کو اس پر غلبہ حاصل ہو جائے گا، پھر وہی ان کا ہاتھ بن جائے گا۔ اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے۔ {وَ مَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَآئَ قَرِیْنًاo} (النساء ۴:۳۸) و اللّٰہ اعلم۔ (۵) اس شخص سے مراد یا تو مرتد ہے یا باغی۔ مرتد تو وہ ہے جو مسلمان ہونے کے بعد اسلام سے نکل جائے۔ ایسا شخص اسلام کا دشمن بن جائے گا اور وہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرے گا۔ تجربہ یہی بتاتا ہے، لہٰذا اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔ اور باغی سے مراد وہ ہے جو مسلمانوں کے ایک امیر پر متفق ہو جانے کے بعد الگ جتھہ بندی کر لے۔ چونکہ ایسا شخص بھی امت مسلمہ کا دشمن ہے اور ان کو آپس میں لڑا کر تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے، لہٰذا وہ بھی واجب القتل ہے تاکہ امت مسلمہ اس کے شر سے محفوظ رہے۔ اسی طرح جو شخص امت مسلمہ سے نکل کر کفار کے ساتھ مل جائے، وہ بھی باغی اور مرتد ہے اور اسے بھی قتل کیا جائے گا، خواہ وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا رہے۔ (۶) باغی کی سزا کے بارے میں تو تمام دنیا متفق ہے کہ اس کے فتنے سے بچنے کے لیے اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے مگر مرتد کی سزائے موت پر بعض بزعم خویش ’’روشن خیال‘‘ حضرات کو اعتراض ہے کہ یہ تنگ نظری ہے اور آزادیٔ فکر پر قدغن ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ایک ملک کے باغی کو سرائے موت دینا تو تنگ نظری نہیں اور نہ اس سے آزادیٔ فکر پر کوئی قدغن عائد ہوتی ہے مگر مذہب کے باغی کو سزائے موت دینا تنگ نظری اور تشدد ہے۔ کیا یہ روشن خیالی ہے؟ انصاف ہے؟ یا تو ہر کسی کو مادر پذر آزاد کر دیجیے کہ وہ مذہب اور ملک کے بارے میں جو مرضی کرے۔ چاہے وہ لوگوں کو قتل کرتا پھرے یا ڈاکے مارتا پھرے، اسے کچھ نہ کہیے کیونکہ یہ تنگ نظری اور آزادیٔ فکر پر پابندی ہے۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں۔ تو پھر لازماً ہر شخص کو، جو کوئی دین اختیار کرتا ہے یا کسی ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے، کسی نہ کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند ہونا پڑے گا۔ اسی میں امن و سکون اور عزت و عافیت بلکہ انسانیت کی بقا ہے۔ (۱) یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس طرح رسول اللہﷺ نے خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے اور فساد ظاہر ہوئے اور یہ سلسلۂ شر تاحال جاری ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہَا۔ (۲) یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے والا ہر شخص واجب القتل ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں: [فَاقْتُلُوْہُ] یعنی امت محمدیہ میں پھوٹ ڈالنے والے کو قتل کو دو۔ یہ الفاظ صیغۂ امر پر مشتمل ہیں اور جب تک کوئی قرینۂ صارفہ موجود نہ ہو، امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ چونکہ یہاں کوئی بھی قرینۂ صارفہ نہیں ہے، لہٰذا یہ حکم وجوبی ہے، اس لیے اسلامی حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ ایسا مجرم اگر اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو اسے قتل کی سزا دے۔ یاد رہے اسلامی حدود کا نفاذ ہر مسلم ملک کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ (۳) اس حدیث سے اللہ جل شانہ کی صفت ’’ید‘‘ کا اثبات ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ویسا ہی ہے جیسا کہ اس کی ارفع و اعلیٰ ذات کے لائق اور شایان شان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہ تو مخلوق کے ہاتھ کے مشابہ ہے اور نہ اس کے کوئی دوسرے معنیٰ، یعنی قدرت وغیرہ ہی مراد ہیں جیسا کہ مؤولین کرتے ہیں {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ} ارشاد باری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا اثبات قرآن مجید سے بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے: {تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ} (الملک ۶۷:۱) ’’ذات بڑی بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں تمام بادشاہی ہے۔‘‘ (۴) اس حدیث سے جماعت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور اس کی مدد و نصرت کبھی بھی جماعت سے الگ نہیں ہوتی، اور جماعت سے مراد دھڑے گروپ اور جماعتیں نہیں بلکہ مسلمانوں کی وہ جماعت مراد ہے جو ایک خلیفہ پر متحد ہو، نیز اس حدیث شریف سے امت مسلمہ کے اندر تفرقہ بازی، پھوٹ اور ان کے نقصان دہ اختلاف کی مضرت اور مذمت بھی واضح ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اور اس کی مدد جماعت کے ساتھ خاص ہے۔ جب جماعت پھوٹ اور اختلاف کا شکار ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اس جماعت پر سے اٹھ جائے گا اور شیطان کو اس پر غلبہ حاصل ہو جائے گا، پھر وہی ان کا ہاتھ بن جائے گا۔ اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے۔ {وَ مَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَآئَ قَرِیْنًاo} (النساء ۴:۳۸) و اللّٰہ اعلم۔ (۵) اس شخص سے مراد یا تو مرتد ہے یا باغی۔ مرتد تو وہ ہے جو مسلمان ہونے کے بعد اسلام سے نکل جائے۔ ایسا شخص اسلام کا دشمن بن جائے گا اور وہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرے گا۔ تجربہ یہی بتاتا ہے، لہٰذا اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔ اور باغی سے مراد وہ ہے جو مسلمانوں کے ایک امیر پر متفق ہو جانے کے بعد الگ جتھہ بندی کر لے۔ چونکہ ایسا شخص بھی امت مسلمہ کا دشمن ہے اور ان کو آپس میں لڑا کر تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے، لہٰذا وہ بھی واجب القتل ہے تاکہ امت مسلمہ اس کے شر سے محفوظ رہے۔ اسی طرح جو شخص امت مسلمہ سے نکل کر کفار کے ساتھ مل جائے، وہ بھی باغی اور مرتد ہے اور اسے بھی قتل کیا جائے گا، خواہ وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا رہے۔ (۶) باغی کی سزا کے بارے میں تو تمام دنیا متفق ہے کہ اس کے فتنے سے بچنے کے لیے اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے مگر مرتد کی سزائے موت پر بعض بزعم خویش ’’روشن خیال‘‘ حضرات کو اعتراض ہے کہ یہ تنگ نظری ہے اور آزادیٔ فکر پر قدغن ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ایک ملک کے باغی کو سرائے موت دینا تو تنگ نظری نہیں اور نہ اس سے آزادیٔ فکر پر کوئی قدغن عائد ہوتی ہے مگر مذہب کے باغی کو سزائے موت دینا تنگ نظری اور تشدد ہے۔ کیا یہ روشن خیالی ہے؟ انصاف ہے؟ یا تو ہر کسی کو مادر پذر آزاد کر دیجیے کہ وہ مذہب اور ملک کے بارے میں جو مرضی کرے۔ چاہے وہ لوگوں کو قتل کرتا پھرے یا ڈاکے مارتا پھرے، اسے کچھ نہ کہیے کیونکہ یہ تنگ نظری اور آزادیٔ فکر پر پابندی ہے۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں۔ تو پھر لازماً ہر شخص کو، جو کوئی دین اختیار کرتا ہے یا کسی ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے، کسی نہ کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند ہونا پڑے گا۔ اسی میں امن و سکون اور عزت و عافیت بلکہ انسانیت کی بقا ہے۔