سنن النسائي - حدیث 4021

كِتَابُ المُحَارَبَة ذِكْرُ مَا يَحِلُّ بِهِ دَمُ الْمُسْلِمِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ: التَّارِكُ لِلْإِسْلَامِ، مُفَارِقُ الْجَمَاعَةِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ قَالَ الْأَعْمَشُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ إِبْرَاهِيمَ، فَحَدَّثَنِي عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4021

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان کن جرائم کی وجہ سے مسلمان کا خون بہانا جائز ہے ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کسی مسلمان آدمی کا، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، خون بہانا جائز نہیں، سوائے تین آدمیوں کے: (ایک) وہ جو اسلام چھوڑ کر کافر بن جائے اور مسلمانوں کی جماعت چھوڑ جائے، اور (دوسرا) وہ جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے، اور (تیسرا) وہ جو کسی جان کو ناحق قتل کرے۔‘‘ اعمش نے کہا: میں نے یہ روایت ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انہوں نے مجھے اسود عن عائشہ (کی سند) سے اس جیسی روایت بیان کی۔
تشریح : (۱) اس حدیث میں قتل کا ذکر ہے، قتال کا نہیں۔ قتل سے مراد حد کے طور پر قتل کرنا ہے اور ان تین اصولوں ہی میں جائز ہے، لیکن قتال، یعنی لڑائی تو باغیوں اور منکرین زکاۃ وغیرہ سے بھی لڑی جا سکتی ہے۔ (۲) ’’کافر بن جائے‘‘ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے تو اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے گا۔ البتہ اگر وہ حد سے پہلے توبہ کر لے تو اسے معافی مل جائے گی۔ (۳) ’’جماعت چھوڑ جائے‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ مرتد ہونے کے بعد مسلمانوں ہی میں رہے تو اسے حد نہ لگائی جائے کیونکہ یہ دراصل ارتداد کی تفسیر ہے، یعنی مرتد ہو جانا مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانا ہے۔ احناف کے نزدیک مرتد عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے قید کیا جائے گا لیکن یہ صریح رایات کے خلاف ہے۔ (۴) قاتل، خواہ آزاد آدمی ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا، البتہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے قتل کرنے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل حدیث: ۴۸۳۸ کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (۵) ’’اس جیسی روایت‘‘ ابراہیم نخعی کے پاس یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی جبکہ اعمش کے پاس عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔ اعمش نے ابراہیم نخعی کو عبداللہ بن مسعود کی روایت سنائی تو ابراہیم نے انہیں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنائی۔ گویا دونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا۔ (۱) اس حدیث میں قتل کا ذکر ہے، قتال کا نہیں۔ قتل سے مراد حد کے طور پر قتل کرنا ہے اور ان تین اصولوں ہی میں جائز ہے، لیکن قتال، یعنی لڑائی تو باغیوں اور منکرین زکاۃ وغیرہ سے بھی لڑی جا سکتی ہے۔ (۲) ’’کافر بن جائے‘‘ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے تو اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے گا۔ البتہ اگر وہ حد سے پہلے توبہ کر لے تو اسے معافی مل جائے گی۔ (۳) ’’جماعت چھوڑ جائے‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ مرتد ہونے کے بعد مسلمانوں ہی میں رہے تو اسے حد نہ لگائی جائے کیونکہ یہ دراصل ارتداد کی تفسیر ہے، یعنی مرتد ہو جانا مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانا ہے۔ احناف کے نزدیک مرتد عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے قید کیا جائے گا لیکن یہ صریح رایات کے خلاف ہے۔ (۴) قاتل، خواہ آزاد آدمی ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا، البتہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے قتل کرنے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل حدیث: ۴۸۳۸ کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (۵) ’’اس جیسی روایت‘‘ ابراہیم نخعی کے پاس یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی جبکہ اعمش کے پاس عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔ اعمش نے ابراہیم نخعی کو عبداللہ بن مسعود کی روایت سنائی تو ابراہیم نے انہیں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنائی۔ گویا دونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا۔