سنن النسائي - حدیث 4013

كِتَابُ المُحَارَبَة تَعْظِيمُ الدَّمِ منكر أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: سَمِعْتُ خَارِجَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: نَزَلَتْ: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا} [النساء: 93] «أَشْفَقْنَا مِنْهَا، فَنَزَلَتِ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ»: {وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ} [الفرقان: 68]

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4013

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مومن کا خون انتہائی قابل تعظیم ہے حضرت خارجہ بن زید بن ثابت اپنے والد محترم (حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری: {وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا} ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘ تو ہم بہت ڈرے۔ پھر وہ آیت اتری جو سورۂ فرقان میں ہے: {وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ} ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ مگر حق کے ساتھ … الخ‘‘
تشریح : (۱) ’’بہت ڈرے‘‘ کیونکہ اس آیت میں سخت وعید ہے کہ قاتل ابدی جہنمی ہے، مغضوب و ملعون ہے، عذاب عظیم کا مستحق ہے۔ جبکہ یہ حالت تو کفار کی ہو گی۔ سورۂ فرقان والی آیت میں شرک و قتل کے بعد توبہ کا ذکر ہے، اس لیے اس آیت میں لوگوں کے لیے سہولت ہے۔ (۲) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سابقہ دو روایات میں صراحت ہے کہ سورۂ فرقان والی آیت پہلے اتری ہے اور سورۂ نساء والی آیت بعد میں۔ لیکن اس روایت میں بالکل الٹ ہے کہ سورۂ نساء والی آیت پہلے اتری اور سورۂ فرقان والی آیت بعد میں۔ یہ صریح تعارض ہے، اس لیے محققین نے اس روایت کو منکر (ضعیف) قرار دیا ہے۔ ممکن ہے غلط فہمی ہو کہ سورۂ نساء والی پہلے اتری۔ بعد میں پتا چل گیا ہو کہ سورۂ فرقان والی پہلے اتری ہے کیونکہ انہوں نے صراحت فرمائی ہے کہ سورۂ نسائی والی آیت چھ یا آٹھ ماہ بعد اتری ہے۔ قریب قریب اترنے والی آیات میں ایسی غلط فہمی ممکن ہے۔ خیر! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایات قطعی ہیں کہ سورۂ فرقان والی آیت پہلے اتری ہے، نیز سورۂ فرقان مکی ہے اور سورۂ نساء مدنی۔ اس لحاظ سے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایات کو ترجیح ہو گی۔ سنداً بھی وہ قوی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ان روایات کا مفاد یہ ہے کہ توبہ والی آیت کفار کے ساتھ خاص ہے اور سزا والی مومنین کے ساتھ، یا پھر توبہ والی آیت منسوخ ہے کیونکہ وہ متقدم ہے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ جمہور توبہ کے قائل ہیں۔ سزا والی آیت تب لاگو ہو گی جب وہ توبہ نہ کرے یا اس سے قصاص نہ لیا جائے یا اللہ تعالیٰ اسے معاف نہ کرنا چاہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس گناہ کی انفرادی سزا ہے۔ جب اس گناہ کے ساتھ نیکیاں بھی ملیں گی تو پھر ہر گناہ کی سزا اور ہر نیکی کا ثواب ملانے سے جو مرکب نتیجہ حاصل ہو گا، اس کے مطابق اس سے سلوک ہو گا۔ و اللہ اعلم۔ (دیکھئے، حدیث: ۳۹۸۹، ۴۰۰۴) (۱) ’’بہت ڈرے‘‘ کیونکہ اس آیت میں سخت وعید ہے کہ قاتل ابدی جہنمی ہے، مغضوب و ملعون ہے، عذاب عظیم کا مستحق ہے۔ جبکہ یہ حالت تو کفار کی ہو گی۔ سورۂ فرقان والی آیت میں شرک و قتل کے بعد توبہ کا ذکر ہے، اس لیے اس آیت میں لوگوں کے لیے سہولت ہے۔ (۲) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سابقہ دو روایات میں صراحت ہے کہ سورۂ فرقان والی آیت پہلے اتری ہے اور سورۂ نساء والی آیت بعد میں۔ لیکن اس روایت میں بالکل الٹ ہے کہ سورۂ نساء والی آیت پہلے اتری اور سورۂ فرقان والی آیت بعد میں۔ یہ صریح تعارض ہے، اس لیے محققین نے اس روایت کو منکر (ضعیف) قرار دیا ہے۔ ممکن ہے غلط فہمی ہو کہ سورۂ نساء والی پہلے اتری۔ بعد میں پتا چل گیا ہو کہ سورۂ فرقان والی پہلے اتری ہے کیونکہ انہوں نے صراحت فرمائی ہے کہ سورۂ نسائی والی آیت چھ یا آٹھ ماہ بعد اتری ہے۔ قریب قریب اترنے والی آیات میں ایسی غلط فہمی ممکن ہے۔ خیر! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایات قطعی ہیں کہ سورۂ فرقان والی آیت پہلے اتری ہے، نیز سورۂ فرقان مکی ہے اور سورۂ نساء مدنی۔ اس لحاظ سے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایات کو ترجیح ہو گی۔ سنداً بھی وہ قوی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ان روایات کا مفاد یہ ہے کہ توبہ والی آیت کفار کے ساتھ خاص ہے اور سزا والی مومنین کے ساتھ، یا پھر توبہ والی آیت منسوخ ہے کیونکہ وہ متقدم ہے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ جمہور توبہ کے قائل ہیں۔ سزا والی آیت تب لاگو ہو گی جب وہ توبہ نہ کرے یا اس سے قصاص نہ لیا جائے یا اللہ تعالیٰ اسے معاف نہ کرنا چاہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس گناہ کی انفرادی سزا ہے۔ جب اس گناہ کے ساتھ نیکیاں بھی ملیں گی تو پھر ہر گناہ کی سزا اور ہر نیکی کا ثواب ملانے سے جو مرکب نتیجہ حاصل ہو گا، اس کے مطابق اس سے سلوک ہو گا۔ و اللہ اعلم۔ (دیکھئے، حدیث: ۳۹۸۹، ۴۰۰۴)