كِتَابُ المُحَارَبَة تَعْظِيمُ الدَّمِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا} [النساء: 93] الْآيَةُ كُلُّهَا بَعْدَ الْآيَةِ الَّتِي نَزَلَتْ فِي الْفُرْقَانِ بِسِتَّةِ أَشْهُرٍ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: «مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ أَبِي الزِّنَادِ»
کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان
مومن کا خون انتہائی قابل تعظیم ہے
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت:{و من یقتل مؤمنا متعمدا فجزاء ہ جہنم} ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے۔ اس میں ہمیشہ رہے گا… الخ‘‘ سورۂ فرقان والی آیت سے چھ ماہ بعد اتری ہے۔
امام ابو عبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کترے ہیں کہ محمد بن عمرو نے یہ روایت ابو الزناد سے نہیں سنی۔ (اس طرح یہ سند منقطع ہو گئی)۔
تشریح :
یہ انقطاع، صحت حدیث میں مضر نہیں کیونکہ درمیان والا واسطہ معروف ہے اور وہ موسیٰ بن عقبہ ہیں جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔ تو ممکن ہے انہوں نے پہلے بواسطۂ موسی، ابو الزناد سے بیان کیا ہو اور پھر بلاواسطہ خود بھی ابو الزناد سے سن لیا ہو، اس لیے وہ کبھی واسطے کے ساتھ بیان کر دیتے ہوں اور کبھی بغیر واسطے کے۔ محدثین کی روایات میں ایسا عام ہے، لہٰذا اس سے حدیث کی صحت متاثر نہیں ہوئی۔ حدیث صحیح اور قابل عمل ہے۔ و اللہ اعلم۔ دیکھئے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: ۳۱/۲۷۸)
یہ انقطاع، صحت حدیث میں مضر نہیں کیونکہ درمیان والا واسطہ معروف ہے اور وہ موسیٰ بن عقبہ ہیں جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔ تو ممکن ہے انہوں نے پہلے بواسطۂ موسی، ابو الزناد سے بیان کیا ہو اور پھر بلاواسطہ خود بھی ابو الزناد سے سن لیا ہو، اس لیے وہ کبھی واسطے کے ساتھ بیان کر دیتے ہوں اور کبھی بغیر واسطے کے۔ محدثین کی روایات میں ایسا عام ہے، لہٰذا اس سے حدیث کی صحت متاثر نہیں ہوئی۔ حدیث صحیح اور قابل عمل ہے۔ و اللہ اعلم۔ دیکھئے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: ۳۱/۲۷۸)