سنن النسائي - حدیث 4010

كِتَابُ المُحَارَبَة تَعْظِيمُ الدَّمِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنِي وَرْقَاءُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ فِي يَدِهِ، وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا يَقُولُ: يَا رَبِّ، قَتَلَنِي، حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ الْعَرْشِ قَالَ: فَذَكَرُوا لِابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ، فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا} [النساء: 93] قَالَ: مَا نُسِخَتْ مُنْذُ نَزَلَتْ: وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4010

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مومن کا خون انتہائی قابل تعظیم ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو سر کے اگلے بالوں سے پکڑ کر لائے گا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ وہ اسے عرش سے قریب کر دے گا۔‘‘ لوگوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {و من یقتل مؤمنا متعمدا فجزاء ہ جہنم} ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے … الخ‘‘ اور فرمایا: جب سے یہ آیت اتری ہے، منسوخ نہیں ہوئی۔ اس کے لیے توبہ کیسے ممکن ہے؟