سنن النسائي - حدیث 4008

كِتَابُ المُحَارَبَة تَعْظِيمُ الدَّمِ صحيح أَخْبَرَنَا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَنْبِجِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي رَوَّادٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلِبِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ قَوْمًا كَانُوا قَتَلُوا، فَأَكْثَرُوا وَزَنَوْا، فَأَكْثَرُوا وَانْتَهَكُوا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ الَّذِي تَقُولُ وَتَدْعُو إِلَيْهِ لَحَسَنٌ، لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ} [الفرقان: 68] إِلَى {فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ} [الفرقان: 70] قَالَ: «يُبَدِّلُ اللَّهُ شِرْكَهُمْ إِيمَانًا وَزِنَاهُمْ إِحْصَانًا وَنَزَلَتْ»: {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ} [الزمر: 53] الْآيَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4008

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مومن کا خون انتہائی قابل تعظیم ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (دور جاہلیت میں) بعض لوگوں نے قتل کیے تھے اور بہت زیادہ کیے تھے، زنا کیے تھے اور بہت زیادہ کیے تھے اور حرمتوں کو پامال کیا تھا۔ وہ لوگ نبیٔ اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے محمد! جو بات آپ کرتے ہیں اور جس کی آپ دعوت دیتے ہیں، بہت اچھی ہے بشرطیکہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ہمارے گزشتہ اعمال کا کفارہ ممکن ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی: {و الذین لا یدعون مع اللہ الہا اخر… الخ} ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے … اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے شرک کو ایمان اور ان کے زنا کو پاک دامنی سے بدل دے گا۔ اور یہ آیت بھی اتری: {قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم} ’’کہہ دیجیے: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے آپ پر زیادتی کی ہے… الخ۔‘‘
تشریح : (۱) کفر کے دور میں کیے گئے گناہ اسلام لانے سے ختم ہو جاتے ہیں، عملاً بھی گناہ چھوٹ جاتے ہیں اور نکیوں کا دور دورہ ہو جاتا ہے اور سابقہ گناہوں کی سزا سے بھی بچ جاتا ہے۔ (۲) گناہوں کی زندگی میں تنگی اور بے چینی جبکہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے میں راحت و سلامتی ہے۔ (۱) کفر کے دور میں کیے گئے گناہ اسلام لانے سے ختم ہو جاتے ہیں، عملاً بھی گناہ چھوٹ جاتے ہیں اور نکیوں کا دور دورہ ہو جاتا ہے اور سابقہ گناہوں کی سزا سے بھی بچ جاتا ہے۔ (۲) گناہوں کی زندگی میں تنگی اور بے چینی جبکہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے میں راحت و سلامتی ہے۔