سنن النسائي - حدیث 4004

كِتَابُ المُحَارَبَة تَعْظِيمُ الدَّمِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَمَّنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا، ثُمَّ تَابَ وَآمَنَ، وَعَمِلَ صَالِحًا، ثُمَّ اهْتَدَى، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ، سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَجِيءُ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ تَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، ثُمَّ مَا نَسَخَهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4004

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان مومن کا خون انتہائی قابل تعظیم ہے حضرت سالم بن ابو الجعد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کر دے، پھر توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے اور راہ راست پر آ جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کے لیے توبہ کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے کہ میں نے تمہارے نبیٔ اکرمﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر لائے گا۔ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا؟‘‘ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمای: اللہ کی قسم! یقینا یہ آیت اللہ تعالیٰ ہی نے اتاری ہے مگر پھر اسے منسوخ فرما دیا۔
تشریح : (۱) بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے قائل نہیں کیونکہ اس کے بارے میں سورۂ نساء کی ایک مخصوص آیت اتر چکی ہے کہ {وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo} (النساء ۴:۹۳) ’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور اور لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘ آیت کے ظاہر الفاظ حضرت ابن عباس کی تائید کرتے ہیں، نیز یہ حقوق العباد میں سے سب سے بڑا حق ہے، لہٰذا مقتول کی رضامندی کے بغیر معافی کیسی؟ مگر دیگر اہل علم اس کی توبہ کے بھی قائل ہیں۔ استدلال سورۂ فرقان کی آیت سے ہے: {اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا o} (الفرقان: ۲۵:۷۰) ’’مگر جو توبہ کر لے، ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے، اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اس سے پہلی آیت میں کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے اور ان میں قتل بھی مذکور ہے۔ حضرت ابن عباس کا موقف یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے، یعنی جو شخص کفر کی حالت میں قتل کر بیٹھے، پھر توبہ کرے اور اسلام قبول کر لے تو اسلام کی برکت سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے جن میں قتل بھی شامل ہے، مگر ایمان لانے کے بعد کسی بے گناہ مومن کو قصداً قتل کرے تو اس کے لیے سورۂ نساء والی آیت ہے جس میںت وبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس مسئلے میں اکیلے ہیں۔ جمہور اہل علم توبہ کے قائل ہیں کیونکہ آخر یہ ہے تو کبیرہ گناہ ہی، کفر تو نہیں، لہٰذا قابل معافی ہے۔ {وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ} (النساء ۴:۴۸) ’’باقی رہا اس کا حقوق العباد سے متعلق ہونا، تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو معاف فرمانا چاہے، تو اس کے مقتول کو اپنی طرف سے راضی فرما دے، مثلاً: اسے اپنے فضل سے جنت میں بھیج کر خوش کر دے اور وہ معاف کر دے وغیرہ۔ (۲) ’’منسوخ فرما دیا‘‘ اس آیت سے مراد سورۂ فرقان والی آیت ہے جس میں توبہ کا ذکر ہے۔ اس کا منسوخ ہونا اس لیے قرین قیاس ہے کہ یہ مکی آیت ہے اور دوسری آیت سورۂ نساء والی مدنی ہے مگر مندرجہ بالا تطبیق کی صورت میں کسی کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں۔ و اللہ اعلم۔ (نیز دیکھئے، حدیث: ۳۹۸۹ اور حدیث: ۴۰۱۳) (۱) بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے قائل نہیں کیونکہ اس کے بارے میں سورۂ نساء کی ایک مخصوص آیت اتر چکی ہے کہ {وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo} (النساء ۴:۹۳) ’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور اور لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘ آیت کے ظاہر الفاظ حضرت ابن عباس کی تائید کرتے ہیں، نیز یہ حقوق العباد میں سے سب سے بڑا حق ہے، لہٰذا مقتول کی رضامندی کے بغیر معافی کیسی؟ مگر دیگر اہل علم اس کی توبہ کے بھی قائل ہیں۔ استدلال سورۂ فرقان کی آیت سے ہے: {اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا o} (الفرقان: ۲۵:۷۰) ’’مگر جو توبہ کر لے، ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے، اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اس سے پہلی آیت میں کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے اور ان میں قتل بھی مذکور ہے۔ حضرت ابن عباس کا موقف یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے، یعنی جو شخص کفر کی حالت میں قتل کر بیٹھے، پھر توبہ کرے اور اسلام قبول کر لے تو اسلام کی برکت سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے جن میں قتل بھی شامل ہے، مگر ایمان لانے کے بعد کسی بے گناہ مومن کو قصداً قتل کرے تو اس کے لیے سورۂ نساء والی آیت ہے جس میںت وبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس مسئلے میں اکیلے ہیں۔ جمہور اہل علم توبہ کے قائل ہیں کیونکہ آخر یہ ہے تو کبیرہ گناہ ہی، کفر تو نہیں، لہٰذا قابل معافی ہے۔ {وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ} (النساء ۴:۴۸) ’’باقی رہا اس کا حقوق العباد سے متعلق ہونا، تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو معاف فرمانا چاہے، تو اس کے مقتول کو اپنی طرف سے راضی فرما دے، مثلاً: اسے اپنے فضل سے جنت میں بھیج کر خوش کر دے اور وہ معاف کر دے وغیرہ۔ (۲) ’’منسوخ فرما دیا‘‘ اس آیت سے مراد سورۂ فرقان والی آیت ہے جس میں توبہ کا ذکر ہے۔ اس کا منسوخ ہونا اس لیے قرین قیاس ہے کہ یہ مکی آیت ہے اور دوسری آیت سورۂ نساء والی مدنی ہے مگر مندرجہ بالا تطبیق کی صورت میں کسی کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں۔ و اللہ اعلم۔ (نیز دیکھئے، حدیث: ۳۹۸۹ اور حدیث: ۴۰۱۳)