كِتَابُ الْغُسْلِ وَالتَّيَمُّمِ بَاب ذِكْرِ نَهْيِ الْجُنُبِ عَنْ الِاغْتِسَالِ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي ثُمَّ يَغْتَسِلُ مِنْهُ قَالَ سُفْيَانُ قَالُوا لِهِشَامٍ يَعْنِي ابْنَ حَسَّانَ إِنَّ أَيُّوبَ إِنَّمَا يَنْتَهِي بِهَذَا الْحَدِيثِ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ إِنَّ أَيُّوبَ لَوْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَرْفَعَ حَدِيثًا لَمْ يَرْفَعْهُ
کتاب: غسل اور تیمم سے متعلق احکام و مسائل
جنبی کو ٹھہرے پانی میں غسل کرنے کی ممانعت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے پانی میں پیشاب نہ کرے، جو چلتا نہیں ہے کہ پھر اس سے غسل کرے۔
حضرت سفیان نے کہا: لوگوں نے ہشام بن حساب سے کہا کہ ایوب تو اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ تک ہی رکھتے ہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچاتے؟) وہ فرمانے لگے: ایوب کے بس میں ہوتا تو وہ کسی بھی حدیث کو مرفوع (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب) بیان نہ کرتے۔
تشریح :
(۱) دراصل حضرت ہشام بن حساب اس حدیث کو مرفوع بیان فرماتے تھے اور حضرت ایوب اسے موقوف (حضرت ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فرمان) بیان کرتے تھے، اس لے شاگردوں نے حضرت ہشام سے وضاحت طلب کی۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کہ یہ روایت مرفوع ثابت ہے۔ حضرت ایوب کا اسے موقوف بیان کرنا ان کی احتیاط ہے۔ بہت سے محدثین حدیث کو مرفوع بیان کرنے سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب نہ ہوجائے، اس لیے وہ تابعی، صحابی تک رک جایا کرتے تھے۔ مگر یہ ضرورت سے زیادہ احتیاط ہے، اس لیے اس سے روایت کی صحت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ (۲) یہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا۔ کسی راوی نے اسے انھیں کی طرف منسوب کردیا۔ دوسرے راویوں سے بلاشک و شبہ یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بیان ہوا ہے۔ (۳) عربی الفاظ میں [المائ الدائم] کے ساتھ [الذی لایجری] کی قید مزید وضاحت کے لیے ہے۔ (۴)جاری پانی میں، جبکہ شدید حاجت ہو، پیشاب کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں نجاست پانی کے ساتھ ہی آگے چلی جائے گی، بلکہ تحلیل ہوجائے گی اور تعفن پیدا نہیں ہوگا، تاہم جہاں تک ہوسکے بچنا ہی بہتر ہے۔
(۱) دراصل حضرت ہشام بن حساب اس حدیث کو مرفوع بیان فرماتے تھے اور حضرت ایوب اسے موقوف (حضرت ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فرمان) بیان کرتے تھے، اس لے شاگردوں نے حضرت ہشام سے وضاحت طلب کی۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کہ یہ روایت مرفوع ثابت ہے۔ حضرت ایوب کا اسے موقوف بیان کرنا ان کی احتیاط ہے۔ بہت سے محدثین حدیث کو مرفوع بیان کرنے سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب نہ ہوجائے، اس لیے وہ تابعی، صحابی تک رک جایا کرتے تھے۔ مگر یہ ضرورت سے زیادہ احتیاط ہے، اس لیے اس سے روایت کی صحت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ (۲) یہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا۔ کسی راوی نے اسے انھیں کی طرف منسوب کردیا۔ دوسرے راویوں سے بلاشک و شبہ یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بیان ہوا ہے۔ (۳) عربی الفاظ میں [المائ الدائم] کے ساتھ [الذی لایجری] کی قید مزید وضاحت کے لیے ہے۔ (۴)جاری پانی میں، جبکہ شدید حاجت ہو، پیشاب کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں نجاست پانی کے ساتھ ہی آگے چلی جائے گی، بلکہ تحلیل ہوجائے گی اور تعفن پیدا نہیں ہوگا، تاہم جہاں تک ہوسکے بچنا ہی بہتر ہے۔