سنن النسائي - حدیث 3989

كِتَابُ المُحَارَبَة كِتَابُ تَحْرِيمِ الدَّمِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ - وَكَانَ قَلِيلَ الْحَدِيثِ -، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَخْطُبُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ، إِلَّا الرَّجُلُ يَقْتُلُ الْمُؤْمِنَ مُتَعَمِّدًا، أَوِ الرَّجُلُ يَمُوتُ كَافِرًا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3989

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان ناحق خون بہانا حرام ہے حضرت ابو ادریس بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خطبہ ارشاد فرماتے سنا، اور وہ اللہ کے رسولﷺ سے بہت کم روایات بیان کرتے تھے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو خطبے میں ارشاد فرماتے سنا: ’’امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف فرما دے مگر یہ کہ کوئی شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے یا کفر کی حالت میں فوت ہو جائے۔‘‘
تشریح : مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم، اللہ کا غصہ، لعنت او عذاب عظیم بتائی گئی ہے۔ کسی اور گناہ کی یہ سزا نہیں بتلائی گئی، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اسے مندرجہ بالا سزائیں بھگتنا ہوں گی۔ یا دنیا میں وہ قصاص دے دے، یعنی قصاصاً مار دیا جائے تو حد گناہ کو مٹا دیتی ہے ورنہ معاف نہ ہو گا۔ ویسے بھی یہ حقوق العباد میں سب سے اہم حق ہے اور حقوق العباد اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس حدیث میں بھی اسے کفر کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ گویا مومن کو جان بوجھ کر، بے گناہ قتل کرنا کفر کے مترادف ہے۔ أعاذنا اللہ۔ دوسرے گناہ تو نیکیوں کے تبادلے میں ختم ہو سکتے ہیں مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ نیکیوں کے تبادلے میں بھی ختم نہ ہو سکے گا۔ إلا من رحم اللہ۔ کفر و شرک اور نفاق بھی ایسے ہی ہیں۔ البتہ کوئی شخص کفر کی حالت میں کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو اسلام لانے سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ (مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔) مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم، اللہ کا غصہ، لعنت او عذاب عظیم بتائی گئی ہے۔ کسی اور گناہ کی یہ سزا نہیں بتلائی گئی، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اسے مندرجہ بالا سزائیں بھگتنا ہوں گی۔ یا دنیا میں وہ قصاص دے دے، یعنی قصاصاً مار دیا جائے تو حد گناہ کو مٹا دیتی ہے ورنہ معاف نہ ہو گا۔ ویسے بھی یہ حقوق العباد میں سب سے اہم حق ہے اور حقوق العباد اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس حدیث میں بھی اسے کفر کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ گویا مومن کو جان بوجھ کر، بے گناہ قتل کرنا کفر کے مترادف ہے۔ أعاذنا اللہ۔ دوسرے گناہ تو نیکیوں کے تبادلے میں ختم ہو سکتے ہیں مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ نیکیوں کے تبادلے میں بھی ختم نہ ہو سکے گا۔ إلا من رحم اللہ۔ کفر و شرک اور نفاق بھی ایسے ہی ہیں۔ البتہ کوئی شخص کفر کی حالت میں کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو اسلام لانے سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ (مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔)