سنن النسائي - حدیث 3984

كِتَابُ المُحَارَبَة كِتَابُ تَحْرِيمِ الدَّمِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَسَارَّهُ، فَقَالَ: «اقْتُلُوهُ»، ثُمَّ قَالَ: «أَيَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟» قَالَ: نَعَمْ، وَلَكِنَّمَا يَقُولُهَا تَعَوُّذًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلُوهُ، فَإِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3984

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان ناحق خون بہانا حرام ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبیٔ اکرمﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ سے خفیہ طور پر بات چیت کی۔ آپ نے پوچھا: ’’اسے قتل کو دو۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا وہ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہے؟‘‘ اس شخص نے کہا: جی ہاں، لیکن وہ جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’پھر اسے قتل نہ کرو کیونکہ مجھے اس وقت تک لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لیں۔ اگر وہ یہ کلمہ پڑھ لیں تو انہوں نے اپنے خون و مال مجھ سے محفوظ کر لیے الا یہ کہ ان پر اسلام کا حق بنتا ہو۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’خفیہ بات چیت کی‘‘ یعنی کسی اور شخص کے بارے میں کہ اس نے یہ کام کیا ہے یا یہ کام کیا ہے۔ و اللہ اعلم۔ (۲) ’’اسے قتل کر دو‘‘ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی شکایت کی گئی تھی، لیکن پھر پتا چلا کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور مسلمان ہو چکا ہے تو آپ نے اپنا پہلا حکم واپس فرما لیا کیونکہ مسلمان کا قتل ناجائز ہے۔ (۳) اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو مسلمانوں کو ان کے بعض تاویلی عقائد کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں اور ان کے قتل کو جائز بلکہ کار ثواب جانتے ہیں۔ یاد رہے حدود اللہ کا نفاذ حکومت کا کام ہے افراد کا نہیں اور اسلام میں مقررہ حدود کے علاوہ کسی مسلمان کو کسی عقیدے یا عمل کی وجہ سے قتل کرنا عظیم گناہ ہے۔ قاتل جہنمی ہو گا، خواہ وہ کتنے ہی خوش نماز نعرے کی بنیاد پر قتل کرے۔ (۴) ’’حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے‘‘ کیونکہ یہ اس کا منصب ہے، ہمارا منصب نہیں۔ حدود شرعیہ کے علاوہ باقی عقائد اور گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے۔ (۵) اگر کوئی مسلمان شرک یا کفر کا ارتکاب کرے تو اسے اسلام کی دعوت دے کر اس پر حجت قائم کی جائے گی اور اگر وہ اپنے شرک و کفر پر اصرار کرے تو شرعی عدالت اس کے قتل کا حکم جاری کر دے۔ (۱) ’’خفیہ بات چیت کی‘‘ یعنی کسی اور شخص کے بارے میں کہ اس نے یہ کام کیا ہے یا یہ کام کیا ہے۔ و اللہ اعلم۔ (۲) ’’اسے قتل کر دو‘‘ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی شکایت کی گئی تھی، لیکن پھر پتا چلا کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور مسلمان ہو چکا ہے تو آپ نے اپنا پہلا حکم واپس فرما لیا کیونکہ مسلمان کا قتل ناجائز ہے۔ (۳) اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو مسلمانوں کو ان کے بعض تاویلی عقائد کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں اور ان کے قتل کو جائز بلکہ کار ثواب جانتے ہیں۔ یاد رہے حدود اللہ کا نفاذ حکومت کا کام ہے افراد کا نہیں اور اسلام میں مقررہ حدود کے علاوہ کسی مسلمان کو کسی عقیدے یا عمل کی وجہ سے قتل کرنا عظیم گناہ ہے۔ قاتل جہنمی ہو گا، خواہ وہ کتنے ہی خوش نماز نعرے کی بنیاد پر قتل کرے۔ (۴) ’’حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے‘‘ کیونکہ یہ اس کا منصب ہے، ہمارا منصب نہیں۔ حدود شرعیہ کے علاوہ باقی عقائد اور گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے۔ (۵) اگر کوئی مسلمان شرک یا کفر کا ارتکاب کرے تو اسے اسلام کی دعوت دے کر اس پر حجت قائم کی جائے گی اور اگر وہ اپنے شرک و کفر پر اصرار کرے تو شرعی عدالت اس کے قتل کا حکم جاری کر دے۔