سنن النسائي - حدیث 3978

كِتَابُ المُحَارَبَة كِتَابُ تَحْرِيمِ الدَّمِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا بَكْرٍ، كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ، إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ فَوَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا، كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ: «فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3978

کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان ناحق خون بہانا حرام ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کترے یہں کہ جب رسول اللہﷺ فوت ہو گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ کے بعد خلیفہ بنے اور بعض عرب کافر بن گئے، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ لوگوڈں سے کیسے لڑائی کریں گے جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے حتی کہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں۔ جس شخص نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا، اس نے مجھ سے اپنا مال و جان بچا لیا، الا یہ کہ اس پر (اسلام کا) کوئی حق بنتا ہو اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں ہر اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا۔ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے بکری کا ایک بچہ بھی دینے سے انکار کریں جو وہ رسول اللہﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس وجہ سے ان سے لڑائی کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اللہ کیق سم! مجھے سمجھ آ گئی کہ اللہ تعلایٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سینہ لڑائی کے لیے کھول دیا ہے، نیز مجھے یقین ہو گیا کہ یہی بات برحق ہے۔
تشریح : (۱) ’’بکری کا ایک بچہ‘‘ بکری کا بچہ زکوٰۃ میں نہیں لیا جاتا۔ مقصد تقلیل کا اظہار ہے جیسا کہ دوسری روایت میں اس کا اظہار رسی کے ذکر سے کیا ہے۔ (۲) ’’اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے‘‘ کہ اس نے کلمہ صدق دل سے پڑھا ہے یا جان بچانے کے لیے۔ (۳) اگر صرف ظاہری معنیٰ لیے جائیں تو اہل کتاب سے بھی قتال جائز نہیں کیونکہ وہ بھی لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتے ہیں، اس لیے تفصیل ضروری ہے۔ (۱) ’’بکری کا ایک بچہ‘‘ بکری کا بچہ زکوٰۃ میں نہیں لیا جاتا۔ مقصد تقلیل کا اظہار ہے جیسا کہ دوسری روایت میں اس کا اظہار رسی کے ذکر سے کیا ہے۔ (۲) ’’اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے‘‘ کہ اس نے کلمہ صدق دل سے پڑھا ہے یا جان بچانے کے لیے۔ (۳) اگر صرف ظاہری معنیٰ لیے جائیں تو اہل کتاب سے بھی قتال جائز نہیں کیونکہ وہ بھی لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتے ہیں، اس لیے تفصیل ضروری ہے۔